ہوتی ہے اور رذائل دور ہو کر اخلاق فاضلہ آنے لگتے ہیں۔اور سبزی کی طرح آہستہ آہستہ بڑھتے ہیںاور اپنے اخلاق اور عادات میں ترقی کرنے لگتے ہیں۔انسان ایک دم میں ہی ترقی نہیں کر لیتا بلکہ دنیا میں قانون قدرت یہی ہے کہ ہر شے تدریجی طور پر ترقی کرتی ہے۔اس سلسلہ سے باہر کوئی شے ہو ہی نہیں سکتی۔ہاں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ سچائی پھیلے گی اور پاک تبدیلی پیدا ہو گی۔یہ مرا کام نہیںہے،بلکہ خدا کا کام ہے۔اس نے ارادہ کیا ہے کہ پاکیزگی پھیلے۔دنیا کی حالت مسخ ہو چکی ہے اور اسے ایک کیڑا لگا ہوا ہے پوست ہی پوست باقی ہے۔مغز نہیں رہا۔مگر خدا نے چاہا ہے کہ انسان پاک ہو جاوے اور اس پر کوئی داغ نہ رہے۔اسی واسطے انہوں نے محض اپنے فضل سے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔‘‘ مسیح موعود ؑ کی حقیقت سوال:۔آپ کی کتابوں کے موافق آپ کا لقب مسیح موعود ہے۔اس کے ٹھیک معنی کیا ہوتے ہیں؟ جواب:۔’’اس راز کو جاننا یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ جس نے نبوتوں کی بنیاد ڈالی ہے۔نبوت کا ایک سلسلہ پہلے قائم کیا تھا اس سلسلہ کی بنیاد حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی سے ڈالی تھی۔ان سے پیشتر جو لوگ دنیا میں گزرے تھے۔ان کے آثار نہ رہے تھے۔حضرت موسیٰ ہی تھے جن کی کتابوں میں نوح کا آدم کا اور بعض دیگر انبیاء علیہم السلا م کا ذکر کیا گیا ہے۔غرض جیسے کسی خاندان کا مورث اعلیٰ ہوتا ہے ۔اسی طرح پر حضرت موسیٰ علیہم السلام کو خاندان نبوت کا مورث اعلیٰ ٹھہرایا اور تورایت کے ذریعہ ان کو اپنی شریعت دی۔موسیٰ مرد خدا کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی خدمت کے لئے کہ اس میں زوال نہ ہواور نبی بھیجتا رہا جو سلسلہ موسویہ کے ہوتے تھے؛چنانچہ حضرت موسیٰ علیہم السلام کے بعد چودھویں صدی میں حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو (جس کو آپ لوگ یسوع کہتے ہیں)اسی سلسلہ موسویہ کا موید بنا کر بھیجا ۔وہ اس سلسلہ کی آخری اینٹ تھے۔جیسے آخری اینٹ مکان کو ختم کر دیتی ہے،اسی طرح پر حضرت مسیح پر سلسلہ موسویہ کا خاتمہ ہو گیا۔اور اس سلسلہ کو خدا نے پورا کیا اور ایک نئے سلسلہ کی بنیاد رکھی جو اسماعیل کی نسل سے قائم ہوا اور سلسلہ محمدیہ کہلایا۔جیسا کہ خود اسماعیل کے لفظ سے بھی معلوم ہوتا ہے اور جیسا خدا تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی معرفت کی خبر دے دی تھی کہ نبی اسماعیل میں ایک سلسلہ موسویہ سلسلہ کی طرح قائم کیا جاوے گا۔چونکہ بنی اسرا ئیل یعنی یہودیوں نے اول کے ساتھ جو موسیٰ علیہم السلام تھے،اچھا سلوک کیا اور نہ آخری کے ساتھ جو مسیح تھا، اچھا سلوک اور ایسا ہی نہ درمیانی نبیوں سے اچھا سلوک کیا۔یہ قوم ایسی سنگدل اور