ان میں سے یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرا دے۔اس وقت تو چیونٹی کی طرح تعصب ہٹ دھرمی اور ضد کی بلائیں لگی ہوئی ہیں۔غرض میں آپ کو کہاں تک سمجھاؤں بات بہت باریک ہے اور دنیا اس سے بے خبر ہے۔اور یہ صرف خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔
اس زمانہ میں دہریت کا زور
میرا مذہب یہ ہے کہ وہ خدا جسے ہم دکھانا چاہتے ہیں وہ دنیا کی نظروں سے پو شیدہ ہے اور دنیا اس سے غافل ہے ۔اس نے
مجھ پر اپنا جلوہ دکھایا ہے۔جو دیکھنے کی آنکھ رکھتا ہے وہ دیکھے۔
دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو خد اکو مانتے ہیں اور دوسرے وہ جو نہیں مانتے اور دہریہ کہلاتے ہیں۔جو نہیں مانتے ان میں سے بھی ایک دہریت کی رگ ہے،کیونکہ اگر وہ خدا کو کامل یقین کے ساتھ مانتے ہیں،تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس قدرفسق وفجور اور بے حیائی میں ترقی ہو رہی ہے۔ایک انسان کو مثلاً سنکھیایا سٹر کنیا دے اجوے جبکہ اس کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ زہر قاتل ہے ،تو وہ اس کو کبھی نہیں کھائے گا۔خواہ اس کے ساتھ تم اسے کسی قدر لالچ بھی روپیہ کا دو۔اس لئے کہ اس کو اس بات کا یقین ہے کہ میں نے اس کو کھایا اور ہلاک ہوا۔پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ گناہ سے ناراض ہوتا ہے اور پھر بھی اس زہر کے پیالے کو پی لیتے ہیں،جھوٹ بولتے ہیں،زنا کرتے ہیں،دکھ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں،بارہ بارہ آنہ یا ایک ایک روپیہ کے زیور معصول بچون کو مار ڈالتے ہیں۔اس قدر بے باکی اور شرارت و شوخی کا پیدا ہونا سچے علم اور پورے یقین کے بعد تو ممکن نہیں سے معلوم ہوا کہ ان کو یہ ہر گز معلوم نہیں کہ یہ بدی کا زہر ہلاک کرنے میںسنکھیایا سٹر کنیا کے زہر سے بھی بڑھ کر ہے۔اگر ان کا ایمان اس بات پر ہوتا کہ خدا ہے اور راہ بدی سے ناراض ہوتا ہے اور اس کی پاداش میں سخت سزا ملتی ہے، تو گناہ سے بے زاری ظاہر کرتے اور بدیوں سے ہٹ جاتے۔لیکن چونکہ گناہ کی زندگی عام ہ وجاتی ہے اور بدی اور فسق وفجور سے نفرت کی بجائے محبت بڑھ جاتی ہے۔اس لئے میں یہی کہوں گا اور یہی سچ ہے کہ آجکل دہریہ مت پھیلا ہوا ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ایک گروہ زبان سے کہتا ہے کہ خدا ایک ہے۔مگر مانتا نہیں ہے،اور دوسرا گروہ صاف انکار کرتا ہے۔حقیقت میں دونوں ملے ہوئے ہیں۔
آمد کا مقصد
اس لئے میں خدا تعالیٰ پر ایسا یقین پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے وہ گناہ کے زہر سے بچ جاوے اور اس کی فطرت اور سرشت میں ایک تبدیلی ہو جاوے۔اس کی موت وارد ہو کر ایک نئی زندگی اس کو ملے۔گناہ سے لذت پانے کی بجائے اس کے دل میں نفرت پیدا ہو ۔جس کی یہ صورت ہو جاوے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے خدا کو پہچان لیا ہے۔