روحانی زندگی پانے کا طریق سوال:۔ہم آپ کو بہت تکلیف دینا نہیں چاہتے۔ یہ روحانی زندگی کس طرح مل سکتی ہے؟ جواب:۔’’خدا کے فضل سے۔‘‘ سوال:۔ہمیں کچھ کہناچاہیے کہ روحانی زندگی ہمیں مل جاوے؟ جواب:۔ہاں ۔دعا کی بڑی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی نیک صحبت میں رہنا چاہیے۔سب تعصبوں کو چھوڑ کر گویا دنیا سے الگ ہو جاوے۔جیسے جہاں طاعون پڑی ہو اور کوئی شخص وہاں سے الگ نہیں ہوتا ہے،تو ہو خطرہ کی حالت میں ہے۔اسی طرح جو شخص اپنی حالت کو بدل نہیں ڈالتا اور اپنی زمین میں تبدیلی نہیں کرتا اور الگ ہو کر نہیں سوچتا کہ کس طرح پاک زندگی پاؤں۔اور خدا سے دعا نہیں مانگتا وہ خطرہ کی حالت میں ہے۔دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا۔جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی۔یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے اس راہ میں قدم تکنا بھی مشکل ہے۔لیکن جو قدم تھکتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے۔ دعا کا ایک ایسا باریک مضمون ہے کہ اس کا ادا کرنا بھی مشکل ہے۔جب تک انسان خود دعا اور اس کی کیفیتوں کا تجربہ کار نہ ہو ،وہ اس کو بیان نہیں کر سکتا۔غرض جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دعائیں مانگتا ہے،تو ہو اور ہی انسان ہو جاتا ہے۔اس کی روحانی کدورتیں دور ہو کر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرار ملتا ہے اور ہر قسم کے تعصب اور ریا کاری سے الگ ہو کر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میںپیدا ہوںبرداشت کر لیتا ہے۔خدا کے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے۔صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے برداشت کرتا ہے۔تب خدا تعالیٰ جو رحمن خدا ہے اور سراسر رحمت ہے،اس پر نظر کرتا ہے اور اس کی ساری غلفتوں اور کدورتوں کو سرور میں بدل دیتا ہے۔ زبان سے دعویٰ کرنا کہ میں نجات پا گیا ہوں یا خدا تعالیٰ سے قویٰ رشتہ پیدا ہو گیا ہے ،آسان ہے۔لیکن خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ ہو کہاں تک ان تمام باتوں سے الگ ہو گیا ہے۔جب سے الگ ہونا ضروری ہے۔یہ سچی بات ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے وہ پا لیتا ہے۔سچے دل سے قدم رکھنے والے کامیاب ہو جاتے ہیں اور منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔جب انسان کچھ دین کا اور کچھ دنیا کا ہوتا ہے ۔آخر کار دین سے الگ ہو کر دنیا کا ہی ہو جاتا ہے۔اگر انسان ربانی نظر سے مذہب کو تلاش کرے تو تفرقہ کا فیصلہ بہت جلد ہو جائے۔مگر نہیں ۔یہاں منزل مقصود اور غرض یہ ہوتی ہے کہ میری بات رہ جائے ۔دو آدمی اگر بات کرتے ہیں ،تو ہر ایک