نے رد کر دیا۔ وہ دانشمند تھے؟نہیں ہر گز نہیں۔یہ صرف زمانہ کی خاصیت ہے کہ ان کو دانشمند کہا جاتا ہے۔ورنہ ان سے بڑھ کر یہ بے وقوف اور سطحی خیال کے اور کون لوگ ہوں گے جو حق کو جھٹلا کر دانشمند بنتے ہیں۔یہ ایک فطرت کی کجی ہوتی ہے۔جو کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو ذلیل کیا جاوے۔اسی طرح خیالی طور پر اس قسم کے مجمع کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم جیت گئے ہیں اور خدا کے راستبازوں کے مقابلہ میں ہم کامیاب ہو گئے،حالانکہ وہی ذلیل نامراد اور مغلوب ہوتے ہیں۔آخر انجام دکھا دیتا ہے اور ایک روشن فیصلہ نمودار ہو جاتا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے ۔راستباز کی کامیابی مخالفوں کی سفاہت اور جہالت پر مہر کر دیتی ہے کہ وہ جس قدر اعتراض کرتے تھے اپنی نادانی سے کرتے تھے۔ میں یہ بار بار لکھ چکا ہوں کہ جوخدا کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں۔دنیا ان کو کم پہچانتی ہے۔بجز ان لوگوں کے جو دیکھنے کی آنکھ رکھتے ہیں۔ان کو دوسرے دیکھ ہی نہیں سکتے،کیونکہ وہ تو ان میں سے ہی کھاتے پیتے حوائج بشری کے رکھنے والے انسان ہوتے ہیں۔ میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور یہ بات کہ میرے نوشتے باقی رہیں گے۔میں پہلے بیان کر چکاہوں کہ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آنے والوںکے دو طبقے ہوتے ہیں۔ایک وہ صاحب شریعت ہوتے ہیں جیسے موسیٰ علیہم السلام اور ایک وہ جو احیائے شریعت لے کر آتے ہیں۔جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔اسی طرح پر ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کامل شریعت لے کر آئے۔جو نبوت کے خاتم تھے۔اس لئے زمانہ کی استعدادوں اور قابلیتوں نے ختم نبوت کر دیا تھا۔پس حضور علیہم السلام کے بعد ہم کسی دوسری شریعت کے آنے کے قائل ہر گز نہیں۔ہاں جیسے ہمارے پیغمبر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم مثیل موسیٰ تھے۔اسی طرح آپ کے سلسلہ کا خاتم جا خاتم الخلفاء یعنی مسیح موعود ہے۔ضروری تھا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح آتا۔پس میں وہی خاتم الخلفاء اور مسیح موعود ہوں۔جیسے مسیح کوئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے،بلکہ موسوی شریعت کی احیائے کے لئے آئے تھے۔میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہر گز نہیں مان سکتا کہ قرآن شریف کے بعد کوئی نئی شریعت آسکتی ہے،کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے۔اسی طرح خد اتعالیٰ نے مجھے شریعت محمدی کے احیاء کے لئے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعوث فرمایا ہے۔میرے الہامات جو خدا کی طرف سے مجھے ہوتے ہیں اور جو ہمیشہ لاکھوں انسانوں میں شائع کئے جاتے ہیں اور چھاپے جاتے ہیں اور ضائع نہیں کئے جاتے ۔وہ ضائع نہ ہوں گے۔اوروہ قائم رہیں گے۔