ہاں اس وقت تو ایسا ہو سکتا ہے۔اور ہوتا ہے کہ جب اہل دنیا کے دلوں سے خدا کی محبت سرد ہو جاتی ہے۔اور اعمال صالحہ کی بجائے چند رسمیں رہ جائیں ۔تقویٰ اور اخلاق فاضلہ نہ رہیں۔اس وقت خدا تعالیٰ ایک شخص کو مبعوث کرتا ہے۔جو اس شریعت پر عملدرآمد کی ہدایت کرتا ہے اور اپنے عملی نمونے سے اس شریعت حقہ کی کھوئی ہوئی عظمت اور بزرگی کو پھر لوگوں کے دلوں میں قائم کرتا ہے۔اس کے مناسب حال اس میں سب باتیں موجود ہوتی ہیں۔وہ خدا تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف رکھتاہے۔کلام الہی کا مغز اسے عطا ہوتا ہے اور شریعت کے اسرار پر اسے اطلاع دی جاتی ہے۔وہ بہت سے خوارق اور نشان لے کر آتا ہے۔غرض ہر طرح سے معزز اور مکرم ہوتا ہے۔مگر دنیا س کو نہیں پہچانتی۔جیسے جیسے کسی کی آنکھیں ملتی جاتی ہیں وہ اس کو اسی حد تک شناخت کرتا جاتا ہے۔ مامورین کی مخالفت یہ امر انسانی عادت میں داخل ہے۔کہ جب کوئی نیا انسان اُس کے سامنے آتا ہے،تو آنکھیں اس کوتاڑتی ہیں کہ یہ اس کا قد ہے۔یہ رنگ ہے،آنکھیں ایسی ہیں۔صورت شکل ایسی ہے۔غرض سر سے لے کر پاؤں تک اس کو تاڑتا ہے۔یہاں تک کہ نظر میں محدود ہو کر آخر کار اس کا رعب کم ہو جاتا ہے۔اسی طرح نبیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔جب وہ آتے ہیں تو معمولی انسان ہوتے ہیں۔تمام حوائج بشری اور ضروریات ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔اس لئے جو کچھ وہ فوق الفو ق باتیں بتاتے ہیں۔دنیا کی نظر میں وہ اچنبھا ہو جاتی ہیں۔اس لئے انکار کیا جاتا ہے۔ان کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ان سے ہنسی کی جاتی ہے،ہر قسم کی تکلیف اور ایذاء رسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کے آپ کے دل میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰؑ کی بڑی ہی عزت کیوں نہ ہو،لیکن جس جگہ میں آج بیٹھا ہوں اگر اسی جگہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰؑ ہوتے،تو ہو بھی اسی نظر سے دیکھے جاتے جس نظر سے میں دیکھا جاتا ہوں۔یہی بھید ہے کہ ہر نبی کو دکھ دیا گیا ہے اورضروری امر ہے کہ ہر کوئی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر اور مرسل ہو کر آوے وہ اپنی قوم میں کیسا ہی معزز اور امین صادق ہو ۔لیکن اس کے دعوے کے ساتھ اس کی تکذیب شروع ہو جاتی ہے اور اس کی تذلیل اور اس کی ہلاکت کے منصوبے ہونے لگتے ہیں۔مگر ہاں جیسے یہ لازمی امر ہے کہ ان کی تکذیب کی جاتی ہے ،ان کو دکھ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی سچی اور یقینی بات ہے کہ ایک وقت آجاتا ہے کہ ان کی جماعتیں مستحکم ہو جاتی ہیں۔وہ دنیا میں صداقت کو قائم کر دیتے ہیں اور راستبازی کو پھیلا دیتے ہیں ۔یہاںتک کہ ایک وہ زمانہ بھی آتا ہے کہ ایک دنیا اس کی طرف ٹوٹ پڑتی ہے اور ان تعلیمات کوقبول کر لیتی ہے،جو وہ لے کر آتے ہیں۔گو اپنے زمانہ میں ان کو دکھ دینے میں کوئی کسر نہ رکھی گئی ہو۔اور نہیں رکھی جاتی۔ہاں سوال یہ ہے ہوتا ہے کہ جنھوں