آئے تھے۔وہ حضرت مسیح موعود ؑ سے بھی ملے اور انہوںنے حضور سے کچھ سوا بھی کیے جن کا جواب حضرت اقدس دیتے رہے۔ہم چونکہ بعد میں پہنچے تھے۔اس لئے ابتدائی سوال اور اس کا جواب نہ لکھ سکے ۔ہمارے ایک بھائی نے اسے لکھا تھا ،مگر افسوس ہے کہ وہ اسے محفوظ نہ رکھ سکے اور وہ کاغذ ان سے گم ہو گیا ،اگر بعد میں مل گیا تو تو ہم اسے بھی درج کر دیں گے ۔سر دست ہم اس مقام سے درج کرتے ہیں ۔جہاںسے ہم نے سنا قلمبند کیا(ایڈیٹر) مامور الہی خود نشان ہوتا ہے نبیوں سے بہت نشان مانگنے والون نے نشان مانگے ۔انہوں نے اس کے جواب میں یہی کہا کہ عقل مند نشان نہیں مانگتے بلکہ مسیح علیہم السلام کے الفاظ میں تو ایسے موقع پر جیسا کہ انجیل سے پتا چلتا ہے ،بہت سختی پائی جاتی ہے ۔یہ سچی بات ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ،وہ نشانات لے کر آتا ہے۔میں تو یہی کہتا ہوں کہ وہ خود ایک نشان ہوتا ہے ،لیکن تھوڑے ہوتے ہیں جو ان نشانات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اوران کو شناخت کرتے ہیں مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد دنیا دیکھ لیتی ہے کہ وہ کیسے عظیم الشان نشانات کے ساتھ آیا ہے ۔یقیناً سمجھ لیں کہ ہو نہیں مرتا۔جب تک کہ دنیا پر ثابت نہ کر دے کہ وہ صاحب نشان ہے۔ مامورین کی دو قسمیں سوال:۔آپ کی سمجھ میں خدا کا کلام کیا ہے۔یعنی آپ بھی کچھ نوشتے چھوٹ جائیں گے۔جیسے انجیل یا تورایت ہے؟ جواب حضرت اقدسؑ:۔بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو لوگ مامور ہو کر لوگوں کہ اصلاح کے لئے آتے ہیں وہ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک وہ جوصاحب شریعت ہوتے ہیں اور ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں۔جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہم السلام وہ خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے اور مامور ہو کر آئے تھے ۔مگر ان کو ایک شریعت دی گئی جس کو آپ تورایت کہتے ہیں اور مانتے ہیں کہ شریعت موسیٰ کی معرفت دی گئی۔ مگر ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے ہم کلام تو ہوتے ہیں اور ان صاحب شریعت لوگوں کی طرح وہ بھی اصلاح خلق کے لئے آتے ہیں۔اور اپنے وقت پر ضرورت حقہ کے ساتھ آتے ہیں مگر وہ صاحب شریعت نہیں ہوتے ۔جیسے حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے بلکہ اس موسوسی شریعت کے پابند تھے۔اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی لغو کام نہیں کرتا ۔جب اس کا زندہ کلام موجود ہو اور ایک مستقل شریعت وقت کی ضرورت کے موافق موجود ہو تو دوسری کوئی شریعت نہیں دی جاتی ،لیکن