اس راہ میں قدم مارنے والے انسان تین قسم کے ہیں۔ایک وہ جو دین العجائز رکھتے ہیں۔یعنی بوڑھیا عورتوں کا سا مذہب نماز پڑھتے ہیں۔روزہ رکھتے ہیں۔قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں اور توبہ استغفار کر لیتے ہیں ۔انہوں نے تقلیدی امر کو مضبوطی سے پکڑا ہے۔اور اس پر قائم ہیں۔دوسرے وہ لاگ ہیں جو اس سے آگے بڑھ کر معرفت کو چاہتے ہیں۔اور ہر طرح کوشش کرتے ہیں اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھاتے ہیں اور اپنی معرفت میں انتہائی درجہ کو پہنچ جاتے ہیں اور کامیاب اور بامراد ہو جاتے ہیں۔تیسرے وہ لوگ ہیں جنہوںنے دین العجائز کی حالت میں رہنا پسند کیا ہے اور اس سے آگے بڑھے اور معرفت میں قدم رکھا مگر اس منزل کو نباہ نہ سکے اور راہ ہی میں ٹھوکر کھا کر گر پڑے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ان لوگوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس کو پیاس لگی ہوئی تھی اور اس کے پاس کچھ پانی تھا۔ اور وہ بھی گدلا تھا،تاہم وہ پی لیتا تو مرنے سے بچ جاتا ۔کسی نے اس کو خبر دی کہ پانچ سات کوس کے فاصلے پر ایک صاف چشمہ ہے۔پس اس نے وہ پانی جو اس کے پاس تھا پھینک دیا اور صاف چشمے کے واسطے آگے بڑھا ۔پر اپنی بے صبری اور بد بختی اور ضلالت کے سبب وہاں نہ پہنچ سکا ۔دیکھو اس کا کیا حال ہوا ۔وہ ہلاک ہو گیا اور اس کی ہلاکت نہایت ہولناک ہوئی یا ان حالتوں کی مثشال اس طرح ہے کہ ایک کنواں کھودا جا رہا ہے۔پہلے تو وہ صرف ایک گڑھا ہے جس سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ آنے جانے والوں کے لئے اس میں گر کر تکلیف اٹھانے کا خطرہ ہے پھر وہ کھودا گیا یہاں تک کہ وہ کیچڑ اور خراب پانی تک پہنچ گیا ۔پر وہ کچھ فائدہ مند نہیں۔پھر جب وہ کامل ہوا اور اس کا پانی مصفا ہو گیا،تو وہ ہزاروں کے واسطے زندگی کا موجب ہو گیا۔یہ جو فقیر اور گدی نشین بنے بیٹھے ہیں۔یہ سب لوگ ناقص حالت میں ہیں۔انبیا ء مصفا پانی کے مالک ہو کر آتے ہیں۔جب تک خدا کی طرف سے کوئی کچھ لے کر نہ آوے۔تب تک بے سود ہے۔الہی بخش صاحب اگر موسیٰ بنتے۔تو ان سے پوچھنا چاہیے کہ ان کی موسیٰ بننے کی علت غائی کیا ہے۔جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں،وہ مزدور کی طرح کے ہوتے ہیں اور لوگوں کو نفع پہنچانے کے لئے آگے قدم بڑھاتے ہیں اور علوم پھیلاتے ہیں اور کبھی تنگی محسوس نہیں کرتے اور سست اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھتے۔‘‘؎۱
۱۹؍اپریل۱۹۰۱ء
۱۹؍اپریل۱۹۰۱ء کو لاہور سے فورمن کالج اور امریکن مشن کے د وپادری مع ایک دیسی عیسائی کے قادیان