غرض دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ انعمت علیہم کے گروہ میں داخل کرے۔‘‘؎۱
اپریل۱۹۰۱ء
کشف والہام کی حقیقت
منشی الہی بخش صاحب وغیرہ لوگوں کی بعض حالتوں سے دھوکا کھا جانے کی نسبت گفتگو تھی۔اس پر حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے فرمایا :
’’عام طور پر رویاء اور کشوف اور الہام ابتدائی حالت میں ہر ایک کو ہوتے ہیں،مگر اس سے انسان کو یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ وہ منزل مقصود کو پہنچ گیا ہے۔اصل میں بات یہ ہے کہ فطرت انسانی میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ ہر ایک شخص کو کوئی خوب یا کشف یا الہام ہو سکتے ہیں۔چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ کفار،ہنود اور بعض فاسق فاجر لوگوں کو بھی خوابیں آتی ہیں۔اور بعض دفعہ سچی بھی ہو جاتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خود خدا تعالیٰ نے ان کے درمیان ایسی حالت کا نمونہ رکھ دیا ہے جو کہ اولیاء اللہ اور انبیاء اللہ میں کامل طور پر ہوتا ہے۔تا کہ یہ لوگ انبیاء کا صاف طور پر انکار نہ کر بیٹھیں کہ ہم اس علم سے بے خبر ہیں۔اتمام حجت کے طور پر یہ بات ان لوگوں کو دی گئی ہے،تاکہ انبیوں کی دعاؤ ں کو سنکر ھریف اقرار کر لے کہ ایسا ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے ،کیونکہ جس بات سے انسان بالکل نا آشنا ہوتا ہے اس کا وہ جلدی انکار کر دیتا ہے۔مثنوی رونی میں ایک اندھے کا ذکر ہے کہ اس نے یہ کہنا شروع کیا کہ افتاب دراصل کوئی شے نہیں لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔اگر آفتاب ہوتا تو کبھی میں بھی دیکھتا ۔آفتاب بولا کہ اے اندھے!تو میرے وجود کا ثبوت انگتا ہے۔تو پہلے خدا سے دعا کر کہ وہ تجھے آنکھیں دے۔اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے۔اگر وہ انسان کی فطرت میں یہ بات نہ رکھ دیتا تو نبوت کا مسئلہ لوگوں کو کیوں کر سمجھ میں آتا ۔ابتدا ئی رویا یا الہام کے ذریعہ سے خدا بندے کو بلانا چاہتا ہے،مگر وہ اس کے واسطے کوئی حالت قابل تشفی نہیں ہوتی؛چنانچہ بلعم کو الہامات ہوتے ہیں،مگر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کہ لو شئنا لرفعنہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رفع نہیں ہوا تھا۔یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ کوئی بر گزیدہ اور پسندیدہ بندہ ابھی تک نہیں بنا تھا۔یہاں تک کہ وہ گر گیا ان الہامات وغیرہ سے انسان کچھ نہیں بن سکتا۔انسان خدا کا بن نہیں سکتا جب تک کہ ہزاروں موتیں اس پر نہ آویں اور بیضہ بشر یت سے وہ نکل نہ آئے۔