ذاتی حملے عجز کا ثبوت ہیں
ذاتی حملوں کا جو بغض اور حسد کی بنا پر کئے جاتے ہیں اور سچائی کے مقابلہ سے عاجز آکر کمینہ اور سفیہ لوگ کرتے ہیں،ان پر ہی اثر ہوتا
ہے جنھوں نے سچائی کی حقیقت کو سمجھا ہوتا اور سچائی نے ان کے دل کو منور نہیں کیا ہوتا،
یہ بالکل سچی بات ہے کہ انسان اس حد تک پثرمردہ ہوتا ہے جب تک سچائی کو سمجھا ہوا نہیں۔جوں جوں وہ اس سمجھتا جاتا ہے اس میںایک تازگی اور شگفتگی آتی جاتی ہے اور روشنی کی طرف آجاتا ہے ۔یہاں تک کہ جب بالکل سمجھ لیتا ہے پھر تاریکی اس کے پاس نہیں آتی ہے۔تاریکی تاریکی کو پیدا کرتی ہے۔اندرونی روشنی اور روشنی کو لاتی ہے۔اسی واسطے تاریکی کو شیطان سے تشبیہہ دی ہے اور روشنی روح القدس سے مشابہ ہے۔اسی طرح معرفت اور یقین کی روشنی جہاں قائم ہو جاتی ہے،وہاں تاریکی نہیں رہتی۔
استغفار اور دعاؤں میں لگ جاؤ
اس لئے میں کہتا ہوں کہ اپنے کاروبار کو چھوڑ کر کبھی یہاں آؤ۔ملک کی حالت خطر ناک ہو رہی ہے۔طاعون بڑے
زور کے ساتھ پھیلتی جا رہی ہے اور اس کے دورے بعض اوقات ساٹھ ساٹھ،ستر ستر برس تک ہوتے رہتے ہیں۔اور شہروں کے شہر تباہ کر دیتی ہے۔مولوی صاحب کے پاس ہی ایک خط آیا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گاؤں تو بالکل ہی خالی ہو گئے ہیں۔یہ مت سمجھو کہ ایک دو سال میں ہی رخصت ہو جائے گی۔یہ اپنا اثر کر کے جاتی ہے۔پھر ہمارے تو ملک سے دور نہیں اس وقت پانچ ضلع مبتلا ہو رہے ہیں۔
پس بے خوف ہو کر مت رہو۔استغفار اور دعاؤں میں لگ جاؤ اور ایک پاک تبدیلی پیدا کرو۔اب غفلت کا وقت نہیں رہا۔انسان کو نفس جھوٹی تسلی دیتا ہے کہ تیری عمر لمبی ہو گی۔موت کو قریب سمجھو۔خدا کا وجود برحق ہے۔جو ظلم کی راہ سے خدا کے حقوق کسی دوسرے کو دیتا ہے،وہ ذلت کی موت دیکھے گا۔اب جیسا کہ سورۃ فاتحہ میں تین گروہ کا ذکر ہے۔ان تینوں کا ہی مزا چکھا دے گا۔اس میں جو آخر تھے،وہ مقدم ہو گئے۔یعنی ضالین۔اسلام وہ تھا کہ ہر شخص مرتد ہوجاتا ،تو قیامت برپا ہو جاتی تھی،مگر اب بیس لاکھ عیسائی ہو چکے ہیں اور خود ناپا ک ہو کر پاک وجود کو گالیاں دی جاتی ہیں۔پھر مغضوب کا نمونہ طاعون سے دکھایا جا رہا ہے۔اس کے بعد انعمت علیہم کا گروہ ہے۔
یہ قاعدہ کی بات ہے اور خدا کی قدیم سے سنت چلی آتی ہے کہ جب وہ کسی قوم کو مخالطب کر کے کہتا ہے کہ یہ کام نہ کر،تو اس قوم میں سے ایک ضرور خدا کی خلاف ورزی کرتا ہے۔کوئی قوم ایسی دکھاؤ کہ جس کو کہا گیا ہو کہ تم یہ کام نہ کرو اور اس نے نہ کیا ہو۔خدا نے یہودیوں سے کہا کہ تحریف نہ کرو۔انہوں نے تحریف کی۔قرآن شریف کی نسبت یہ نہیں کہا بلکہ یہ کہا انا نحن نزلنا وانا لہ لحافظون(الحجر:۱۰)