کہیں ہاتھ پڑنے کی جگہ باقی نہیں ہے ذاتیات پر ہی گفتگو شروع کر دی جائے اس خیال سے کہ انسان جلد تر اس طرز سے متاثر ہو جاتا ہے ،مگر کیا ان احمقوںکو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ عیسائی بھی ایسے ہی اعتراض کرتے ہیں۔آریوں کی ایک چھوٹی سی کتاب میں نے دیکھی جو حضرت موسیٰ کے متعلق انہوں نے لکھی ہے ۔انہوں نے اس میں بہت سے اعتراض کیے ہیں کہ بہت سے بچے انہوں نے قتل کرا دئے۔مصریوں کا مال لے گئے۔وعدہ خلافی کی جھوٹ بولا معاذ اللہ۔غرض کوئی بڑے سے ؓرا گناہ نہیں۔جو ان کے ذمہ نہ لگایا گیا ہو۔گویا وہ ان کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ میں کہہ چکا ہوںکہ جب یہ لوگ نبوت کے طریق پر کامیاب نہیں ہوتے اور کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے تو یہ ایسے ہی اعتراض کر دیا کرتے ہیں۔حضرت مسیح موعود کے متعلق جو کتاب پڑھی گئی تھی،اس نے کیا کسر باقی رکھی ہے اور ایسا ہی وہ اخبارات جو آزاد خیال لوگوں کا یہاں آتا ہے۔وہ کس قدر ہنسی اڑاتا ہے۔قاعدہ کی بات ہے کہ صدق اور سچائی کے شعلے دم نہیں لینے دیتے،تو موٹی عقل والوںکو یہ لوگ دھوکہ دینے لگتے ہیں اور اپنے خیال میں ایک حد تک یہ لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں۔جس قدر عیسائی ہوتے ہیں۔اس کا یہی باعث ہے۔جب تک انسان کو ان علوم پر اطلاع نہ ہو ۔جو تسلی اور اطمینان کا موجب ہوتے ہیں اور انسان کو یقین کی حد تک پہنچاتے ہیں۔ایسے خطرات تو ہمات کے پیش آنے کا ندیشہ ہی اندیشہ ہے۔ روحانی تعلق کا کمال دنیا میں دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ایک جسمانی تعلقات ۔جیسے ماںباپ بہن بھائی وغیرہ کے تعلقات۔ دوسرے روحانی اور دینی تعلقات۔یہ دوسری قسم کے تعلقات اگر کامل ہو جائیں،تو سب قسم کے تعلقات سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔اور یہ اپنے کمال کوتب پہچانتے ہیں۔جب ایک عرصہ تک صحبت میں رہے۔دیکھورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو جماعت صحابہؓ کی تھی ،اس کے یہ تعلقات ہی کمال کے پہنچے ہوئے تھے ۔جو انھوں نے نہ وطن کی پروا کی اور نہ اپنے مال واملاک کی اور نہ عزیزواقارب کی ۔یہاں تک کہ اگر ضرورت پڑی ،تو انھوں نے بھیڑ بکری کی طرح اپنے سر خدا کی راہ میں رکھ دئیے۔وہ شدائد مصائب جوان کو پہنچ رہے تھے،ان کے برداشت کرنے کی قوت اور طاقت ان کو کیونکرملی ،اس میں یہی سر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلقات بہت گہرے ہو گئے تھے ۔انھوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا،جو آپؐ لے کر آئے تھے اور پھر دنیا اور اس کی ہر ایک چیز ان کی نگاہ میں خدا تعالیٰ کے لقاء کے مقابلہ میں کچھ ہستی رکھتی ہی نہیں تھی۔ یاد رکھو ۔جب سچائی پورے طور پر اپنا اثرپیدا کر لیتی ہے،تو وہ ایک نور ہو جاتی ہے جو ہر ایک تاریکی میں اس کے اختیار کرنے والے کے لیے رہنما ہوتا ہے اور ہر مشکل میں بچاتا ہے۔