کی نسبت کرتے ہیں تو میں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ ابھی ان اعتراضوں میں پورا کمال نہیں ہوا، کیونکہ خاتم النبیین کی پاک ذات پر جب اس قدر اعتراض کئے گئے ہیں تو ہم مخالفوں کا منہ کیوں کر بند کر سکتے ہیں۔ پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ میری نسبت جس قدر اعتراض کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی ایسا اعتراض نہیں ہے جو اولوالعزم انبیا علیہم السلام پر کیا گیا ہو، اگر کسی کو اس میں شک ہو تو وہ میری ذات پر کوئی اعتراض کر کے دکھائے جو کسی پہلے نبی پر نہ کیا گیا ہوں مگر ہم دعوی سےکہتے ہیں کہ جس قسم کا اعتراض مجھ پر کیا جائے گا یا جو اب تک ہوئے ہیں، اسی قسم کے اعتراض ان پر ہوئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ مسلسل منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے۔ اس لئے اس سلسلہ کی سچائی کے لئے وہی معیار ہے جو انبیا علیہم السلام کی صداقت کے لئے ہوتا ہے۔
اللہ تعالی گواہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہم کسی کو شہادت میں پیش کر سکتے ہیں کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے۔ سولہ یا سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا رہا ہوں، مگر ایک طرفه العین کے لئے بھی ان اعتراضوں نے میرے دل کو نذبذب یا متاثر نہیں کیا اور پیش خدا تعالی کا فضل ہے۔ میں جوں جوں ان کے اعتراضوں کو پڑھتا جاتا تھا اسی قدر ان اعتراضوں کی ذلت میرے دل میں ساتی جاتی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عظمت اور محبت سے ول عطر کے شیشہ کی طرح نظر آتا۔ میں نے یہ بھی غور کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے جس پاک فعل یا قرآن شریف کی جس آیت پرفخالفوں نے اعتراض کیا ہے، وہاں یحقائق اور علم کا ایک خزان نظر آیا ہے جو کہ ان بد باطن اور خبیث طینت مخالفوں کوعیب نظر آیا ہے۔
سنو!انسان کامل مومن اس وقت تک نہیں ہوتا، جب تک کفار کی باتوں سے متاثر نہ ہونے والی فطرت حاصل نہ کرنے اور فطرت نہیں ملتی جب تک اس شخص کی محبت میں نور ہے جو شده متاع کو واپس دلانے کے واسطے آیا ہے۔ پس جب تک کہ وہ اس متاع کونہ لے لے اور اس قابل نہ ہوجائے
کے مخالف باتوں کا اس پر بھی اثر نہ ہو تو اس وقت تک اس پر حرام ہے کہ اس محبت سے الگ ہو کیونکہ وہ اس بچے کی مانند ہے جو ابھی ماں کی گود میں ہے اور صرف دودھ ہی پر اس کی پرورش کا انحصار ہے۔ پس اگر وہ بچہ ماں سے الگ ہو جائے تو فی الفور اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح اگروہ محبت سے علیحدہ ہوتا ہے تو خطرناک حالت میں جا پڑتا ہے۔ پس بجائے اس کے کہ دوسروں کو درست کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہو خود الٹا متاثر ہوجاتا ہے اور اوروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنتا ہے۔ اس لئے ہم کو دن رات جلن اور افسوس میں ہے کہ لوگ بار بار یہاں آئیں اور دیر تک محبت میں رہیں۔ انسان کامل ہونے کی حالت میں اگر ملاقات کم کر دے اور تجربہ سے دیکھ لے کہ تقوی ہوگیا ہوں تو اس وقت اسے جائز ہوسکتا ہے کہ ملاقات کم کر دے