اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتاہے۔
مرکز میں باربارآنے کی ضرورت درحقیقت یہ ایک بہت ہی ضروری امر ہے۔ اگر خداتعالیٰ کسی کو توفیق دے اور وہ اس کوسمجھ لے کہ بار بار آنے کی کس قدر ضرورت ہے۔ اس سے یہی نہ ہوگا کہ وہ اپنے نفس کو فائدہ پہنچائے گا، بلکہ بہتوں کوفائدہ پہنچا سکے گا، کیونکہ جب تک خود ایک معرفت اور بصیرت پیدا نہ ہو وُہ دوسروں کو کیا راہ بتائے گا۔ یہی وجہ ہوتی ہے۔ کہ بعض شریرالطبع لوگ ایسے آدمیوں کو جن کو بار بار آنے کی عادت نہیںکوئی سوال کرتے ہیں؛ چونکہ انہوں نے جوابات سُنے ہوئے نہیں ہوتے اور ساکت ہوکر نہ صرف خود خفت اُٹھاتے ہیں، بلکہ دُوسروں کے لئے جو دیکھنے سُننے والے ہوتے ہیں۔ ٹھوکر کا موجب ہوجاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان مغلوب ہوجاتا ہے ،تو وُہ غالب کے اثر سے بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ بسااوقات اُس کے دل کو وُہ اثر سیاہ کردیتا ہے اور پھر قاعدہ کے موافق وہ تاریکی بڑھنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُسی میں اُس کو موت آجائے، تو وُہ جہنم میںداخل ہوا۔ ان ساری باتوں پر غور کرکے ایک دانشمند اس نتیجہ پر ضرور پہنچے گا کہ اس بات کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ ان زہروں کے دُور کرنے کے واسطے جو روح کو تباہ کرتی ہیں۔ کسی تریاقی صحبت کی ضرورت ہے۔ جہاں رہ کر انسان مہلکات کا علم بھی حاصل کرتا ہے اور نجات دینے والی چیزوں کو معرفت بھی حاصل کرلیتا ہے۔ اسی واسطے ایک عرصہ سے میرے دل میں یہ بات ہے اور مَیں سوچتا ہوں کہ اپنی جماعت کا امتحان سوالات کے ذریعہ سے لُوں؛ چنانچہ مَیں نے اس تجویز کا کئی بار ذکر بھی کیا ہے؛ اگرچہ ابھی مجھے موقعہ نہیں ملا۔ لیکن یہ بات میرے دل میں ہمیشہ رہتی ہے کہ ایک بار سوالات کے ذریعہ آزماکر دیکھوں کہ جو کچھ ہم پیش کرتے ہیں ا سکے متعلق ان کو کہاں تک علم ہے اور انہوں نے ہمارے مقاصد اور اغراض کو کہاں تک سمجھا ہے۔ اور جو اعتراض اندرونی یا بیرونی طور پر کیے جاتے ہیں اُن کی مدافعت کہاں تک کرسکتے ہیں۔ اگر چالیس آدمی بھی ایسے نکل آویں جن کے نفس منور ہوجاویں اور پوری بصیرت اور معرفت کی روشنی انہیں مل جائے تو وُہ بہت کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔
اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتاہے۔
مرکز میں باربارآنے کی ضرورت درحقیقت یہ ایک بہت ہی ضروری امر ہے۔ اگر خداتعالیٰ کسی کو توفیق دے اور وہ اس کوسمجھ لے کہ بار بار آنے کی کس قدر ضرورت ہے۔ اس سے یہی نہ ہوگا کہ وہ اپنے نفس کو فائدہ پہنچائے گا، بلکہ بہتوں کوفائدہ پہنچا سکے گا، کیونکہ جب تک خود ایک معرفت اور بصیرت پیدا نہ ہو وُہ دوسروں کو کیا راہ بتائے گا۔ یہی وجہ ہوتی ہے۔ کہ بعض شریرالطبع لوگ ایسے آدمیوں کو جن کو بار بار آنے کی عادت نہیںکوئی سوال کرتے ہیں؛ چونکہ انہوں نے جوابات سُنے ہوئے نہیں ہوتے اور ساکت ہوکر نہ صرف خود خفت اُٹھاتے ہیں، بلکہ دُوسروں کے لئے جو دیکھنے سُننے والے ہوتے ہیں۔ ٹھوکر کا موجب ہوجاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان مغلوب ہوجاتا ہے ،تو وُہ غالب کے اثر سے بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ بسااوقات اُس کے دل کو وُہ اثر سیاہ کردیتا ہے اور پھر قاعدہ کے موافق وہ تاریکی بڑھنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُسی میں اُس کو موت آجائے، تو وُہ جہنم میںداخل ہوا۔ ان ساری باتوں پر غور کرکے ایک دانشمند اس نتیجہ پر ضرور پہنچے گا کہ اس بات کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ ان زہروں کے دُور کرنے کے واسطے جو روح کو تباہ کرتی ہیں۔ کسی تریاقی صحبت کی ضرورت ہے۔ جہاں رہ کر انسان مہلکات کا علم بھی حاصل کرتا ہے اور نجات دینے والی چیزوں کو معرفت بھی حاصل کرلیتا ہے۔ اسی واسطے ایک عرصہ سے میرے دل میں یہ بات ہے اور مَیں سوچتا ہوں کہ اپنی جماعت کا امتحان سوالات کے ذریعہ سے لُوں؛ چنانچہ مَیں نے اس تجویز کا کئی بار ذکر بھی کیا ہے؛ اگرچہ ابھی مجھے موقعہ نہیں ملا۔ لیکن یہ بات میرے دل میں ہمیشہ رہتی ہے کہ ایک بار سوالات کے ذریعہ آزماکر دیکھوں کہ جو کچھ ہم پیش کرتے ہیں ا سکے متعلق ان کو کہاں تک علم ہے اور انہوں نے ہمارے مقاصد اور اغراض کو کہاں تک سمجھا ہے۔ اور جو اعتراض اندرونی یا بیرونی طور پر کیے جاتے ہیں اُن کی مدافعت کہاں تک کرسکتے ہیں۔ اگر چالیس آدمی بھی ایسے نکل آویں جن کے نفس منور ہوجاویں اور پوری بصیرت اور معرفت کی روشنی انہیں مل جائے تو وُہ بہت کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔
یہ سلسلہ منہاج نبوت پرقائم ہے۔ میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کتابیں پڑھتا ہوںاور ان کے اعتراضوں پر غور کرتا رہا ہوں۔ میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے جو عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے لیکن جب میں لوگوں کے اعتراضوں کو پڑھتا ہوں جو میری ذات