اس کا اَجر دے گا۔ مَیںیہ صرف اپنی جماعت کے ارادوں کا ترجمہ کرتا ہوں۔ میرا منشاء تو اسی حد تک ہے کہ کسی طرح عرب اور دوسرے ملکوںمیں تبلیغ ہوجائے۔ یہ اُنہوں نے اپنی دانست میں سہل طریق مقرر کیا ہے جس کو تجارتی طریق پر سمجھ لیا جائے۔ تجارت کے اُمورظن غالب ہی پر چلتے ہیں۔ بہرحال یہ اُن کا ارادہ ہے۔ میرے نزدیک جہاں تک یہ امر مذہب سے تعلق رکھتا ہے، تو مَیں اس کی حماقت کرتا ہوں ۔ اگر یہ تجویز عمل میں نہ بھی آئے تب بھی یہ کام تو ہوجائے گا۔ بہر حال آپ غور کرلیں۔ اللہ تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے۔‘‘ یکم اپریل ۱۹۰۱؁ء معرفت اور بصیرت ’’اکثر لوگوں کے خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے ہم سے یہ سوال کیا اور ہم اس کا جواب نہ دے سکے۔ ایسی حالت میں انسان کچھ مذبذب اور کمزور ہو  جاتا ہے۔ یادرکھو۔ آئے دن وساوس میں پڑنا ناقص معرفت کا نتیجہ ہوتاہے۔معرفت اور بصیرت تو ایسی شے ہے کہ انسان فرشتوں سے مصافحہ کرلیتا ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ معرفت جیسی کوئی طاقت نہیں ہے۔پرندے کہاں تک اُڑ کر جاتے ہیں،لیکن معرفت والا انسان اُن سے بھی آگے نکل جاتا ہے اور بہت دُورپہنچ جاتا ہے پس اصل مدعا یہی ہے کہ ہمیں وہ یقین حاصل کرنا چاہیے جو اطمینان کے درجہ تک پہنچادیتا ہے۔ بدُوں اس کے انسان بالکل اُدھورااور ناقص ہے اور اس کی ترقی کے دروازے بند ہیں۔ مامورمن اللہ کی صحبت ضروری ہے ہماری جماعت کے لئے یہ امر ضروری پڑا ہوا ہے کہ وہ اپنے وقتوں میں کچھ وقت نکال کر آئیں اور یہاں صحبت میں رہ کر اس غفلت کی تلافی کریں جو غیبوبت کے زمانہ میں پیدا ہوئی ہے اور اُن شبہات کودور کریں جو اس غفلت کا باعث ہوتے ہیں۔ اُن کا حق ہے کہ وُہ اُن کو پیش کریں اور اُن کا جواب ہم سے سنیں۔ بھلا اگر کمزور بچہ جو ابھی دودھ پینے اور ماں کے کنارِ عطفت کا محتاج ہے۔ اس سے الگ کردیا جائے تو تم اُمید کرسکتے ہو کہ وُہ بچ رہے گا۔ کبھی نہیں۔ اسی طرح بلوغ سے پیشتر کے کمال اور معرفت کا حال ہے۔ انسان کمزور بچہ کی طرح ہوتا ہے۔ مامور من اللہ کی صحبت اس کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اگر وُہ اس سے الگ ہوجائے ، تو