یہ سب عبادت میں داخل ہے۔ غیر اللہ کی عبادت کا اتنا ہی مفہوم نہیں ہے کہ سجدہ نہ کیا جاوے۔ نہیں ۔ بلکہ اُس کے مختلف مدارج ہیں۔ اگر کوئی مال سے انتہاء درجہ کی محبت کرتا ہے تو وہ اس کا بندہ ہوتا ہے۔خدا کابندہ وہ ہے جو خدا کے سوا اور چیزوں کی حدِ اعتدال تک رعایت کرتا ہے۔ اسلام میں محبت واُمید منع نہیں ہے، مگر ایک حد تک۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمادیا ہے کہ جو خدا سے محبت کرتے ہیں۔ اُسی سے ڈرتے اسی سے اُمید رکھتے ہیں۔ وُہ ایک سلطان رکھتے ہیں، لیکن جو نفس کے تابع ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی سلطان نہیں ہے۔ جو محکم طور پر دل کو پکڑے ۔ غرض انسان کا کوئی فعل اور قول ہو جب تک وہ خدائی سلطان کا پیرو نہ ہو۔ شرک کرت اہے۔ پس ہم جو اپنی کاروائی کی دو طور پر اشاعت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اوراس سے بڑھ کر کوئی شاہد نہیں ہوسکتا کہ کس قدر سچے جوش اور خالصتہً اللہ اس کو پیش کرتے ہیں۔ ہمیں اتفاق نہیں ہوا کہ انگریزی میں لکھ پڑھ سکتے۔ اگر ایس اہوت اتو ہم کبھی بھی اپنے دوستوں کو تکلیف نہ دیتے، مگر اس میں مصلحت یہ تھی کہ تادوسروں کو ثواب کے لیے بلائیں؛ ورنہ میری طبیعت تو ایسی واقع ہوئی ہے کہ جو کام مَیں خود کر سکتا ہوں۔ اُس کے لئے کسی دوسرے کو کبھی کہتا ہی نہیں۔ اگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چار برس زندگی پاتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوجاتے۔دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ فتح عظیم جس کا آپؐ کے ساتھ وعدہ تھا، حاصل کرچکے تھے۔ رأیت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا (النصر:۳) دیکھ چکے تھے۔ الیوم اکملت لکم (المائدہ:۴) ہوچکا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اُن کو محروم رکھے، بلکہ یہی چاہا کہ اُن کو بھی ثواب میں داخل کردے۔ اسی طرح پر اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم کو اس قدر خزانے دے دیتا کہ ہم کو پروا بھی نہ رہتی۔ مگر خداثواب میں داخل کرتا ہے، جس کو وہ چاہتا ہے۔ یہ سب جو بیٹھے ہیں یہ قبریں ہی سمجھو،کیونکہ آخرمرنا ہے۔ پس ثواب حاصل کرنے کا وقت ہے۔مَیں ان باتوں کو جوخُدا نے میرے دل پر ڈالی ہیں۔سادہ اورصاف الفاظ میں ڈالنا چاہتا ہوں۔ اس وقت ثواب کے لیے مستعد ہو جائو اور یہ بھی مت سمجھو ہ اگر اس راہ میں خرچ کریں گے، تو کچھ کم ہوجاوے گا۔خداتعالیٰ کی بارش کی طرح سب کمیاں پوری ہوجائیں گی۔ من یعمل مثقال ذرۃ خیرآیرہ (الزلزال:۸) یادرکھو۔ خدا کی توفیق کے بغیر دین کی خدمت نہیں ہوسکتی۔ جوشخص دین کی خدمت کے واسطے شرح صدر سے اُٹھتا ہے۔ خدا اس کو ضائع نہیں کرتا۔ غرض خلاصہ یہ ہے کہ ایک پہلو تو مَیں کررہا ہوں، دُوسرے پہلو کو ہماری انگریزی خواں جماعت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ انہوں نے یہ تجویز کی ہے کہ تجارت کے طریق پر یہ کام جاری ہوجائے۔ دین کی اشاعت ہوجائے گی اور اُن کا کوئی حَرج نہ ہوگا۔ اُمید ہے کہ خدا