سورۃ فاتحہ میں منعمین کاذکر اللہ تعالیٰ نے ا س کو کئی سورتوں میں بیان کردیا ہے۔ اول تو یہی سورۂ نور۔ دُوسری سورۂ فاتحہ جس کو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں۔
اس سورۃ میں تین گزشتہ فرقے پیش کیے ہیں۔ ایک وہ جو انعمت علیہم کے مصداق ہیں۔ دُوسرے مغضوب، تیسرے ضالین ۔ مغضوب سے یہ مخصوصاً مراد نہیں کہ قیامت میں ہی غضب ہوگا۔ کیونکہ کتاب اللہ کو چھوڑتا اور احکامِ الہٰی کی خلاف ورزی کرتا ہے، ان سب پر غضب ہوگا۔ مغضوب سے مراد بالاتفاق یہود مراد ہیں اور الضالین سے نصاریٰ۔ اب اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ منعم علیہ فرقہ میں داخل ہونے اور باقی دو سے بچنے کے لئے دُعاہے اور یہ سنت اللہ ٹھہری ہوئی ہے۔ جب سے نبوت کی بنیادڈالی گئی ہے۔ خداتعالیٰ نے ی قانون مقررکررکھا ہے کہ جب وہ کسی قوم کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے، تو بعض اس کی تعمیل کرنے اور بعض خلاف ورزی کرنے والے ضرور ہوتے ہیں۔ پس بعض منعم علیہ بعض مغضوب اور بعض ضالین ضرور ہوں گے۔
اب زمانہ بآواز بلند کہتا ہے کہ اس سورۃ شریف کے موافق ترتیب آخر سے شروع ہوگئی ہے۔ آخری فرقہ نصاریٰ کا رکھا ہے۔ اب دیکھو کہ اس میں کس قدر لوگ داخل ہوگئے ہیں۔ ایک بشپ نے اپنی تقریر میں ذکر کیا ہے کہ بیس لاکھ مسلمان مرتد ہوچکے ہیں اور یہ قوم جس زور شور کے ساتھ نکلی ہے اور جو جو جو طریق اُس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے اختیار کیے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی عظیم الشان فتنہ نہیں ہے۔ اب دیکھو کہ تین باتوں میں سے ایک تو ظاہر ہوگئی ۔ پھر دوسری قوم مغضوب ہے۔ مجھے معلوم ہوت اہے کہ اس کا وقت بھی آگیا اور وہ بھی پورا ہورہا ہے۔ یہودیوں پر غضب الہٰی اس دُنیا میں بھی بھڑکا اور طاعون نے اُن کو تباہ کیا۔ اب اپنی بدکاریوں اور فسق وفجور کی وجہ سے طاعون بکثرت پھیل رہی ہے۔ کتمانِ حق سے وہ لوگ جو عالم کہلاتے ہیں۔ نہیں ڈرتے ۔ اب ان دونوں کے پور اہونے سے تیسرے کا پتہ صاف ملت اہے۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ جب چار میں سے تین معلوم ہوں، تو چوتھی شے معلوم کرلیتا ہے اور اس پر اس کو اُمید ہوجاتی ہے۔ نصاریٰ میں لاکھوں داخل ہوگئے ۔ مغضوب میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ منعم علیہ کا نمونہ بھی اب خدادکھانا چاہتاہے، جب کہ سورۃ فاتحہ میں دعا تھی اور سورۂ نور میں وعدہ کیا گیا ہے۔ تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نور میں دُعا قبول ہوگئی ہے۔ غرض اب تیسرا حصہ منعم علیہ کا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ اس کو روشن طور پر ظاہر کردے گا اور یہ خداتعالیٰ کا کام ہے ، جو ہوکررہے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ انسان کو ثواب میں داخل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ استحقاق جنت کاثابت کرلیں۔ جیسا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںہوا۔ خداتعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ وہ صحابہ کے بدوں ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرقسم کی فتوحات عطافرماتا، مگر