عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوگیا؛ چونکہ یہودگی بداعمالیاں آخری حد تک تک پہنچ گئی تھیں اور اُن میں یہاں تک شقادت اور سنگدلی پید اہوگئی تھی کہ وُہ انبیاء کے قتل تک مستعد ہوئے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے غضب کی راہ سے اس سلسلہ کو جس میں ملوک اور انبیاء ؑ تھے۔ حضرت عیسیٰ ؑ پر ختم کردیا۔
مسیح ؑ کی بے باپ ولادت نشان ہے مَیں ہمیشہ سے اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ ؑ بے باپ پیدا ہوئے تھے۔ اور ان کا بے باپ پیدا ہونا ایک نشان تھا اس بات پر کہ اب بنی اسرائیل کے خاندان میں نبوت کا خاتمہ ہوتا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ وعدہ تھا کہ بشرطِ تقویٰ نبوت بنی اسرائیل کے گھرانے سے ہوگی، لیکن جب تقویٰ نہ رہا تو یہ نشان دیا گیا تاکہ دانشمند سمجھ لیں کہ اب آئندہ اس سلسلہ کا انقطاع ہوگا۔ غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بنی اسرائیل کی نبوت کا خاتمہ ہوگیا۔ پہلی کتابوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھاکہ بنی اسماعیل میں بھی ایک سلسلہ اسی سلسلہ کا ہمرنگ پیدا ہوگا اور اس کے امام و پیشوا اور سردر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔ توریت میں بھی یہ خبر دی گئی تھی۔ قرآن شریف میں بھی فرمایا ۔ کما ارسلنا الی فعرو رسولاً۔ (المزمل:۱۶) جیسے توریت میں مانند کا لفظ تھا۔ قرآن شریف میں کما لا لفظ موجود ہے۔
آں حضرت ؐ مثیل موسیٰ ؑ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالاتفاق مچیل موسیٰ ؑ ہیں۔ سورۃ نور میں بھی ذکر فرمایا گیا ہے کہ سلسلہ محمدیہ موسویہ سلسلہ کا مثیل ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ علیہ السلام کے درمیانی انبیاء کا ذکر قرآن شریف نے نہیں کیا۔ لم نقصص (المومن :۷۹) کہہ دیا ۔ یہاں بھی سلسلہ محمدیہ میں درمیانی خلفاء کا نام نہیں لیا۔ جیسے وہاں ابتدا اور انتہاء بتائی ، یہاں بھی یہ بتادیا کہ ابتدامثیل موسیٰ ؑ سے ہوگی اور انتہا مثیل عیسیٰ ؑ پر ۔گویا خاتم الخلفاء وہی ہے جس کو دوسرے لفظوں میںمسیح موعود کہتے ہیں۔ موعود اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا وعدہ کیاگیا ہے۔
آیت استخلاف میںمسیح موعود کی پیشگوئی وعداللہ الذین امنو امنکم وعملواالصلحت (النور:۵۶)میں خلفاء کے تقرر کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا تھا، اسی وعدہ میں وُہ خاتم الخلفاء بھی شامل ہے۔ اورنصِ قرآن سے ثابت ہوا کہ وہ موعود ہے۔ جو خط ایک نقطہ سے شروع ہو گا وہ ختم بھی ایک نقطہ پر ہی ہو گا۔پس جیسے وہاں کاتم مسیح ہے،یہاں بھی خاتم الخلفاء ہے۔اس لئے یہ اعتقاد اسی قسم کا ہے کہ اگر کوئی انکار کرے کہ اس امت میں مسیح موعود نہ ہو گا وہ قرآن سے انکار کرتا ہے اور اس کا ایمان جاتا رہے گا ۔اور یہ بالکل واضح بات ہے ۔اس میں تکلف اور بناوٹ کا نام نہیں ہے۔پھر جو شک وشبہ وہ قرآن شریف کو چھوڑتا ہے۔