۳۱؍مارچ ۱۹۰۱ء
تقریرحضرت اقدس ؑ
بعثت مُرسلین کے متعلق خداتعالیٰ کی ازلی سُنت ’’سب صاحب اس بات کو سُن لیں کہ چونکہ ہماری یہ سب کاروائی خداہی
کے لیے ہے۔ وہ اس غفلت کے زمانہ میں اپنی حجت پوری کرنا چاہتا ہے جیسے ہمیشہ انبیاء علہیم السلام کے زمانہ میں ہوتا رہا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ زمین پر تاریکی پھیل گئی ہے تو وہ تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو سمجھاوے اور قانون کے موافق حجت پوری کرے۔ اس لیے زمانہ میں جب حالات بدل جاتے ہیں اور خداتعالیٰ سے تعلق نہیں رہتا۔ سمجھ کم ہوجاتی ہے۔ اس وقت خداتعالیٰ اپنے کسی بندہ کو مامور کردیتاہے تاکہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو سمجھائے اور یہی بڑا نشان اس کے مامور ہونے پر ہوتا ہے کہ وہ لغو طور پر نہیں آتا ہے ۔ بلکہ تمام ضرورتیں اس کے وجود پر شہادت دیتی ہیں۔ جیسے ہمارے پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا اعتقادی اورعملی حالت بالکل خراب ہوگئی تھی اور نہ صرف عرب کی بلکہ کل دنیا کی حالت بگڑ چکی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ظھرالفساد فی البروالبحر۔(الروم:۴۲) اس فساد عظیم کے وقت خداتعالیٰ نے اپنے کامل اور پاک بندہ کو مامور کرکے بھیجا۔ جس کے سبب سے تھوڑی ہی مدت میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہوگئی۔ مخلوق پرستی کی بجائے خداتعالیٰ پوجا گیا۔ بداعمالیوں کی بجائے اعمالِ صالحہ نظر آنے لگے۔ ایسا ہی اس زمانہ میں بھی دُنیا کی اعتقادی ور عملی حالت بگڑ گئی ہے اور اندرونی اور بیرونی حالت انتہاء تک خطرناک ہوگئی ہے۔ اندرونی حالت ایسی خراب ہوگئی ہے کہ قرآن تو پڑھتے ہیں، مگر یہ معلوم نہیں کہ کیا پڑھتے ہیں۔ اعتقاد بھی کتاب اللہ کے برخلاف ہوگئے ہیں اور اعمال بھی ۔ مولوی بھی قرآن کو پڑھتے ہیں اور عوام بھی،مگر تدبرنہ کرنے میں دونوں برابر ہیں۔ اگر غور کرتے تو بات کیسی صاف تھی۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مثیلِ موسیٰ ؑ پیدا کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سلسلہ پیداکرتا ہے پھر جب اس سلسلہ پر ایک دراز عرصہ گذرنے کے بعد ایک قسم کا پردہ سا چھا جاتاہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلے میں اور سلسلہ اسی رنگ میں قائم کرتا ہے۔
قرآن شریف میں دو سلسلوں کا پتہ لگتا ہے۔اول بنی اسرائیل کا سلسلہ جو موسیٰ ؑسے شروع ہو ااور حضرت