خاص نہیں ہے۔ احدخدا کا اسم ہے اور احد کے مفہوم واحد سے بڑھ کر ہے۔ صمد کے معنی ہیں ازل سے غنی بالذات جو بالکل محتاج نہ ہو۔ اقنومِ ثلٰثہ کے ماننے سے وہ محتاج پڑتا ہے۔‘‘
۱۱؍مارچ ۱۹۰۱ء
’’ساری خوشیاں ایمان کے ساتھ ہیں‘‘۔ ؎۲
۲۱؍مارچ ۱۹۰۱ء
وجد وسُرور کا رُوحانیت سے تعلق نہیں فرمایا:
’’بعض انسانوں کو دیکھو گے کہ کافیاں اورشعرسن
کر وجد وطرب میں آجاتے ہیں ، مگر جب مثلاً ان کو کسی شہادت کیلئے بلایا جائے، تو عذر کریں گے کہ ہمیں معاف رکھو۔ ہمیں تو فریقین سے تعلق ہے۔ ہمیں اس معاملہ میں داخل نہ کرو۔ پس سچائی کا اظہار نہ کریں گے۔ ایسے لوگوں کے وجدوسرور سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے ۔ جب کسی ابتلاء میں آجاتے ہیں، تو اپنی صداقت کا ثبوت نہیں دے سکتے۔ اُن کا وجدوسرور قابلِ تعریف نہیں۔ یہ وجد وسُرور ایک عارضی چیز اور طبعی امر ہے۔ بعض مُنکرینِ اسلام جن کو تمام پاکبازوں سے دلی عداوت ہے۔ وُہ بھی اس سُرور سے حصہ لیتے ہیں ۔ ایک متعصب ہندو مثنوی مولوی رُومی رحمۃ اللہ علیہ پڑھ کر سرور حاصل کرتا تھا؛ حالانکہ وہ دشمن اسلام تھا کیا تم سانپ کو پاکباز مانو گے، جو بانسری سن کر سرور میں آجاتا ہے یا اُونٹ کو خدا رسیدہ قراردوگے جو خوش الحانی سے نشہ میں آجاتا ہے۔سچائی کا کمال جس سے خدا خوش ہوتا ہے وُہ یہ ہے ہ انسان خداتعالیٰ کے ساتھ اپنی وفاداری دکھائے۔ ایسے انسان کا تھوڑا عمل بھی دوسرے کے بہت عمل سے بہتر ہے۔مثلاً ایک شخص کے دو نوکر ہیں۔ ایک نوکر دن میں کئی دفعہ اپنے مالک کی خدمت میں آکر سلام کرتا ہے اور ہر وقت اس کے گرد پیش رہتا ہے۔