۷؍مارچ ۱۹۰۱؁ء الہامات اور حدیث النفس میں امتیاز الہامات کے متعلق ذکر تھا کہ اس میں بہت مشکلات پڑتے ہیں ۔ فرمایا: بعض لوگ حدیث النفس اور شیطان کے القاء کو الہام الہٰی سے تمیز نہیں کرسکتے اور دھوکا کھاجاتے ہیں ۔ خدا کی طرف سے جو بات آتی ہے وہ پُرشوکت اور لذیذ ہوتی ہے۔ دل پر ایک ٹھوکر مارنے والی ہوتی ہے۔ وُہ خدا کی انگلیوں سے نکلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کا ہم وزن کوئی نہیں وہ فولاد کی طرح گرنے والی ہوتی ہے۔جیساکہ قرآن شریف میں آیا ہے۔ انا سنلقی علیک قولا ً ثقیلاً۔ ثقیل کے یہی معنی ہیں، مگر شیطان اور نفس کا اتقا ایسا نہیں ہوتا۔ حدیث النفس اور شیطان گویا ایک ہی ہیں۔ انسان کے ساتھ دو قوتیں ہمیشہ لگی ہوئی ہیں۔ ایک فرشتے اور دوسرے شیطان۔ گویا اس کی ٹانگوں میں دو رستے پڑے ہوئے ہیں۔ فرشتہ نیکی میں ترغیب اور مدددیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے ایدھم بروج منہ اور شیطان بدی کی طرف ترغیب دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے یوسوس ان دونوں کا انکار نہیںہوسکتا۔ ظلمت اور نور ہر دوساتھ لگے ہوئے ہیں۔ عدمِ علم سے عدمِ شے ثابت نہیں ہوسکتا۔ ماسوائے اس عالم کے اور ہزاروں عجائبات ہیں۔ گولایدرک ہوں۔ قل اعوذ برب الناس میں شیطان کے ان وساوس کا ذکر ہے جو کہ وہ لوگوں کے درمیان ان دنوں ڈال رہا ہے۔ بڑا وسوسہ یہ ہے کہ ربوبیت کے متعلق غلطیاں ڈالی جائیں۔ جیساکہ امیرلوگوں کے پاس بہت مال و دولت دیکھ کر انسان کہے کہ یہی پرورش کرنے والے ہیں۔ شیطانی وساوس کا علاج اس واسطے حقیقی رب الناس کی پناہ چاہنے کے واسطے فرمایا۔ پھر دُنیوی بادشاہوں اور حاکموں کو انسان مختارِ مطلق کہنے لگ جاتا ہے۔اس پر فرمایا کہ مالک الناس اللہ ہی ہے۔ پھر لوگوں کے وساوس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ مخلوق کو خدا کے برابر ماننے لگ پڑتے ہیں اوران سے خوف و رجا رکھتے ہیں۔ اس واسطے الہٰ الناس فرمایا۔ یہ تین وساوس ہیں۔ ان کے دُور کرنے کے واسطے یہ تین تعویذ ہیں اور ان وساوس کے ڈالنے والا وہی خناس ہے، جس کا نام توریت میں زبانِ عبرانی کے اندر ناحاش آیا ہے جو حوا کے پاس آیا تھا۔ چھپ کر حملہ کرے گا، تاکہ کسی کو خبر نہ ہو۔ جیسا کہ پادریوں کا حملہ ہوتا ہے۔ یہ غلط ہے کہ شیطان خود حوا کے پاس گیا ہو۔ بلکہ جیسا کہ اب چھُپ کر آتا ہے ویسا ہی تب بھی چھپ کرگیا تھا۔ کسی آدمی کے اندر وہ اپنا خیال بھردیتا ہے اور وُہ اُس کا قائم مقام ہوجاتا ہے۔ کسی ایسے