صاحب کچھ عرصہ تک قادیان میں رہے۔ انہوں نے حضرت اقدس کی صحبت میں رہ کر جو فائدہ اُٹھایا ۔ اُس کے اظہار کے لئے ہم اُن کے ایک خط کو بھی اُنہوں نے لاہور سے ہمارے نام بھیجا ہے یہاں درج کرتے ہیں: مکری جناب شیخ صاحب ۔تسلیم میری بے اَدبی معاف فرمادیں ۔مَیں قادیان سے اچانک کچھ وجوہاتھ رکھنے پر چلا آیا۔ مَیں اب یہاں سوچوں گا کہ مجھے اپنی زندگی پر لوک کے لئے کس پہلو میں گذارنی ہے۔ مَیں آپ کی جماعت کی جُدائی سے تکلیف محسوس کررہا ہوں۔ (۲) مَیں حضرت جی کے اخلاص کا حددرجہ مشکور ہوں اور جو کچھ رُوحانی دان مجھے نصیب ہوا اور جو کچھ مجھ پر ظاہر ہوا۔ اُس کے لئے نہایت ہی مشکور ہورہا ہوں۔مگر افسوس ہے دنیا میں سخت اندھکار ہے اور مَیں ایک ایک قدم پر گررہا ہوں۔ سوائے صُحبت کے اس حالت کو قائم رکھنامیرے لئے کٹھن ودشوار ہے۔ (۳) اس بات پر میر ایقین ہے کہ بے شک حضرت صاحب رُوحانی بھلائی کے طالبوں کے لئے اعلیٰ نمونہ ہیں اور ان کی صحبت میں مستقل طور پر رہنا بڑا ضروری ہے۔ دُنیا کی حالت یاسی ہے کہ موتیوں کو کیچڑ میں پھینکتے ہیں اورکوڑیاں جمع کرتے ہیں اور جو شخص موتی سنبھالنے لگے اس کے سر پر مٹی پھینک دیتے ہیں۔ہائے افسوس کہ وہ کوڑیوں کو بھی موتی سمجھے بیٹھے ہیں۔ مَیں سخت گھبرا ہوا ہوں۔ ہاں میں کیا کرو اور کدھر جائوں۔ میری حالت بہت بُری ہے۔ تمام جماعت کی خدمت میں آداب ۔خصوصاً حضرت صاحب کی خدمت میں مودبانہ آداب عرض فرماویں اور میرے لیے حضرت صاحب اور تمام جماعت سے دُعا کروایں۔ آپ کا نیاز مند وزیرسنگھ یہ خط حضرت اقدس ؑ کے حضور پڑھ کر سنایا گیا۔حضور علیہ السلام نے ایڈیٹر الحکم کو مندرجہ ذیل جواب لکھ دینے کا حکم دیا: ’’صبراوراستقلال کے ساتھ جب تک کوئی ہماری صحبت میں نہ رہے ، وُہ فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔ ان کو چاہیے کہ وُہ یہاں آجائیں اور ایک عرصہ تک ہمارے پاس رہیں۔‘‘