ہے کہ جہاں سے اسے سچائی ملے لے لے۔ یہ ایک نور ہے جو اس کی رہبری کرتاہے۔ اس وقت دُنیا میں ایک کشاکش شروع ہے۔ آریہ اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں۔ برہمو الگ بُلاتے ہیں۔ دیو سماج والے اپنی طرف دعوت کرتے ہیں۔ عیسائی ہیں وہ عیسائیت ہی کو پیش کرتے ہیں۔ غرض ہر قوم اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اُن کے درمیان اختلاف کا دائرہ بہت ہی وسیع ہوتا جاتا ہے۔
ہماری دعوت۔ خدا کی تلاش
مگرہم جس بات کی دعوت کرتے ہیں اور جو کسی سچائی کے طلبگار کو بتلاسکتے ہیں وُہ خدا کی تلاش کرے۔ مثلاًآریہ ہیں وہ تمام
قدوسوں اورراستبازوں کو گالیں دیتے ہیں۔ ان کے نزدیگ سچے اور سچار پریمی اور بھگت بھی کبھی نجات نہیں پاسکتا ان کے اُصول کے موافق خدا نے ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ اب بتائو کہ ایسے پرمیشر پر جو وہ پیش کرتے ہیں کسی سچے طالب کی امید کیونکہ وسیع ہوسکتی ہے اور کیونکر خدا کا جلال اور شوکت اُس کی روح پر ایک وقت پیدا کرکے گناہ کی طرف جانے سے بچا سکتی ہے۔ جب وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے تو میرے وجود کا ایک ذرہ بھی پید انہیں کیا پھر جب یہ مانا گیا کہ دید کے سوا خدا نے کسی اور ملک کو اپنے کلام سے فیض ہی نہیں بخشا، تو کس قدر مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ الغرض ہماری نصیحت تو یہی ہے کہ جو سچائی کی تلاش میں قدم رکھتا ہے اس کی غرض اور غایت خد اکی تلاش ہو۔ پھر معارف اور حقائق کا دریا بہہ نکلتا ہے۔ جب اس کو سچے خد اپر جو ایک ہی خدا ہے سچا ایمان پیداہوجائے۔
حقائق اور معارف کا تعلق علُوم سے ہے یارکھو حقائق اور معارف کا تعلق علوم سے ہے۔ جس قدر معرفت وسیع ہوگی، حقائق کھلتے جائیں گے۔پس تحقیقات کرتے وقت دل کو بالکل پاک اور صاف کرکے کرے۔ جس قدر دل تعصب اور خود غرضی سے پاک ہو گا، اسی قدر جلد اصل مطلب سمجھ میں آجائے گا۔ نور اور ظلمت میں جو فرق ہے اسے ایک جاہل سے جاہل انسان بھی جانت اہے۔ سچی اور صحیح بات ایک ہی ہوتی ہے۔ پس دو لفظوں میںمیری ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدھا خط دو نقطوں میں ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ اُمور ہیں جو قابلِ غور ہیں۔ آپ یہاں رہیں اور صبر واستقلال سے ٹھہریں۔ خد اکے فضل سے کچھ بعید نہیں ہے کہ آپ کو اس راہ کا پتہ ملے جو کروڑ ہا مقدس انسانوں کا تجربہ شدہ ہے اور اب بھی جس کے تجرے کارموجود ہیں۔‘‘
حق جُو کا حضرت اقدس ؑ سے خلوص وعقیدت کا اظہار حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تقریر کو یہاں ختم کیا۔حق
جُو