رقتِ قلب انسان صرف اس بات پر ہی ناز نہ کرے اور اپنی ترقی کی انتہا اسی کو نہ سمجھ لے کہ کبھی کبھی اس کے اندر رقت پید اہوجاتی ہے۔ یہ رقت عارضی ہوتی ہے۔ انسان اکثر دفعہ ناول پڑھتا ہے اور اس کے درد انگیز حصہ پر پہنچ کربے اختیار روپڑتا ہے؛ حالانکہ وہ صاف جانتا ہے کہ یہ ایک جھوٹی اور فرضی کہانی ہے۔ پس اگر محض روپڑنا یا رقت کا پید اہوجانا ہی حقیقی سُرور اور لذت کی جڑ ہوتی ہے۔ تو آج یورپ سے بڑھ کرکوئی بھی رُوحانی لذت حاصل کرنے والا نہ ہوتا۔ کیونکہ ہزار ہا ناول شائع ہوتے اور لاکھوں کروڑوں انسان پڑھ کر روتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک بات موجود ہے کہ ہنسی کے مقام پر ہنس پڑتا ہے اور رونے کے مقام پر رو بھی پڑتا ہے اور اُن سے مناسب موقع پر ایک لذت بھی اُٹھاتا ہے، مگر یہ لذت کوئی روحانی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ کوئی کسی عورت پر عاشق ہوجاتا ہے اور اپنے فسق ہی میں اُس کے ہجر کے شعر بنابناکر کوش ہوتا ہے اور روا ہے۔ انسان کے اندر ایک طاقت ہے خواہ اُس کو محل پر استعمال کرے یا بے محل۔ پس اس طاقت پر ہی بھروسہ کرکے نہ بیٹھ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت اس لیے رکھی ہے کہ سچے سائل محروم نہ ہوں اور جب یہ برمحل استعمال ہو، تو ان کے لئے آنے والے رُوحانی مدارج کا ایک مقدمہ ہو اور یہ قویٰ کاکام دے۔
غرض یہ اُمور کہ کبھی روپڑنا اور کبھی دُنیا کی دُوسری چیزوں اور تعلقات سے انقطاع کرنا یہ عارضی ہوتے ہیں۔ اُن پر اعتبار کرکے بے دست و پانہ بنے۔
سچی معرفت کی بنیاد وُہ امور جن پر سچی معرفت کی بنا ہے، یہ ہیں کہ وہ خد اکی راہ میں اگر باربار آزمایا جائے اور مصائب اور مشکلات کے دریا میں ڈالا جائے۔تب بھی ہر گز نہ گھبرائے۔ اور قدم آگے ہی بڑھائے۔ اس کے بعد اُس کی معرفت کا انکشاف ہوتا ہے اور یہی سچی نعمت حقیقی راحت ہوتی ہے۔ اس وقت دل میں رِقت پیدا ہوتی ہے، مگر یہ رقت عارضی نہیں ہوتی،بلکہ سُرور اور لذت سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ رُوح پانی کے ایک مصفیٰ چشمہ کی طرح خدا کی طرف بہتی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ سمندر کے پہلے ایک سراب آتا ہے، وہ بھی سمندر ہی نظر آتا ہے۔ جو سراب کو دھوکا سمجھ کر آگے چلنے سے رہ جاتا اور مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے وہ ناکام اور نامراد رہتا ہے، لیکن جو ہمت نہیں ہارتا اور قدم آگے بڑھاتا ہے، وہ منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے۔ خداتعالیٰ نے مختلف کیفتیں انسانی روح کے اندر رکھی ہوئی ہیں۔ اُن میں سے اس رقت کی بھی ایک کیفیت ہے۔ کوئی فقط شعر خوانی یا خوش الحانی ہی سے متاثر ہوجاتا ہے۔ کوئی آگے چلتا ہے اور ان پر قانع نہ ہوکر صبر کے ساتھ اصل مرحلہ تک پہنچتا ہے۔ یہ یادرکھو کہ سچائی کے طالب کے واسطے یہ شرط