نیکی کے دوپہلو انسان کے لئے دو باتیں ضروری ہیں۔ بدی سے بچے اور نیکی کی طرف دوڑے۔ اور نیکی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ایک ترک شر دوسرا فاجہِ خیر۔ ترکِ شر سے انسان کامل نہیں بن سکتا۔ جب تک اس کے ساتھ افاضۂ خیر نہ ہو۔ یعنی دوسروں کو نفع بھی پہنچائے اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس قدر تبدیلی کی ہے اور یہ مدارج تب حاصل ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی صفات پر ایمان ہواور اُن کا علم ہو۔ جب تک یہ بات نہ ہو۔ انسان بدیوں سے بھی بچ نہیں سکتا۔ دُوسروں کو نفع پہنچانا تو بڑی بات ہے۔ بادشاہوں کے رُعب اور تعزیرات ِ ہند سے بھی تو ایک حد تک ڈرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے پھر کیوں احکم الحاکمین کے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس کی کوئی اور وجہ ہے بجز اس کے کہ اُس پر ایمان نہیں ہے؟ یہی ایک باعث ہے۔
الغرض بدیوں سے بچنے کا مرحلہ تب طے ہوتاہے۔ جب خداپر ایمان ہو پھر دوسرا مرحلہ یہ ہوناچاہیے کہ اُن راہوں کی تلاش کرے جو خداتعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے اختیار کیں۔ وہ ایک ہی راہ ہے جس پر جس قدر راستباز اور برگزیدہ انسان دنیا میں چل کر خداتعالیٰ کے فیض سے فیضیاب ہوئے۔ اس راہ کا پتہ یوں لگتا ہے کہ انسان معلوم کرے کہ خداتعالیٰ نے اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ پہلا مرحلہ بدیوں سے بچنے کا تو خداتعالیٰ کی جلالی صفات کی تجلی سے حاصل ہوتا ہے کہ وہ بدکاروں کا دشمن ہے۔
اور دوسرا مرتبہ خداتعالیٰ کی جمالی تجلی سے ملتا ہے اور آخر یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوت اور طاقت نہ ملے جس کو اسلامی اصطلاح کے موافق رُوح القُدس کہتے ہیں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہ ایک قوت ہوتی ہے، جو خداتعالیٰ کی طرف سیملتی ہے۔ اُس کے نزول کے ساتھ ہی دل میں ایک سکینت آتی ہے اور طبیعت میں نیکی کے ساتھ ایک محبت اور پیار پیدا ہوجاتا ہے۔
جس نیکی کو دوسرے لوگ بڑی مشقت اور بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہ ایک لذت اور سُرور کے ساتھ اس کو کرنے کی طرف دوڑتا ہے۔ جیسے لذیذ چیز بچہ بھی شوق سے کھالیتا ہے۔ اسی طرح جب خداتعالیٰ سے تعلق ہوجاتا ہے اور اس کی پاک رُوح اس پر اُترتی ہے۔ پھر نیکیاں ایک لذیذ اور خوشبو دار شربت کی طرح ہوتی ہیں۔ وُہ خوبصورتی جو نیکیوں کے اندر موجود ہے اس کو نظر آنے لگتی ہے اور بے اختیار ہوہوکر ان کی طرف دوڑتا ہے۔ بدی کے تصور سے بھی اُس کی رُوح کانپ جاتی ہے
یہ اُمور اس قسم کے ہیں کہ ہم اُن کو الفاظ کے پیرایہ میں پورے طور سے ادا نہیں کرسکتے ، کیونکہ یہ قلب کی حالتیں ہوتی ہیں۔ محسوس کرنے سے ہی اُن کا ٹھیک پتہ لگتا ہے۔ اس وقت تازہ بتازہ اَنوار اس کو ملتے ہیں۔