یہ آپ یادرکھیں اور ہمارامذہب یہی ہے کہ کسی شخص پرخدا کا نور نہیں چمک سکتا ، جب تک آسمان سے وہ نور نازل نہ ہو۔ یہ سچی بات ہے ہ فضل آسمان سے آتا ہے۔ جب تک خود خدا اپنی روشنی اپنے طلبگار پر ظاہر نہ کرے ۔ اس کی رفتار ایک کیڑے کی مانند ہوتی ہے اور ہونی چاہیے، کیونکہ وہ قسم قسم کی ظلمتوں اور تاریکیوں اور راستہ کی مشکلات میں پھنسا ہواہوتا ہے، لیکن جب اس کی روشنی اس پر چمکتی ہے، تو اس کا دل و دماغ روشن ہوجاتا ہے اور وُہ نور سے معمور ہوکر برق کی رفتار سے خدا کی طرف چلتا ہے۔ حق جُو: حضُور مَیں مذہب کا پابند نہیں ہوں۔ حضرت اقدس ؑ: اگر کوئی اپنی جگہ یہ فیصلہ کرکے آوے کہ مَیں نے کچھ ماننا ہی نہیں تو اس کو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور کہیں بھی کیا۔ لیکن اگر کوئی عقل رکھتا ہے تو اضطراراً اس کو ایک راہ پیدا کرنی پڑتی ہے۔ مذہب کیا ہے؟ مذہب کیا ہے؟ وہی راہ ہے جس کو وہ اپے لیے اختیار کرتا ہے۔ مذہب تو ہر شخص کو رکھنا پڑتااور وہ لامذہب انسان جو خدا کو نہیں مانتا اس کو بھی ایک راہ اختیار کرنی لازمی ہے۔ اور وہی مذہب ہے۔مگر ہاں امر غور طلب یہ ہونا چاہیے کہ جس راہ کو اختیار کیا ہے،کیا وہ راہ وہی ہے جس پر چل کر اس کو سچی استقامت اور دائمی راحت اور خوشی اور ختم نہ ہونے والا اطمینان مل سکتا ہے؟ دیکھو!مذہب تو ایک عام لفظ ہے۔اس کے معنے چلنے کی جگہ یعنی راہ کے ہیں اور یہ دین کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ہر قسم کے علوم وفنون طبقات الارض ، طبعی ، طباعبت ، ہیئت وغیرہ میں بھی ان علوم کے ماہرین کا ایک مذہب ہوتا ہے۔ اس سے کسی کو چارہ ہوسکتا نہیں۔ یہ تو انسان کے لئے لازمی امر ہے۔ اس سے باہر ہونہیں سکتا۔ پس جیسے انسان کی رُوح جسم کو چاہتی ہے۔ معافی الفاظ اور پیرا یہ کو چاہتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو مزہب کی ضرورت ہے۔ ہماری یہ غرض نہیں ہے اور نہ ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ کوئی اللہ کہے یا گاڈ کہے یا پرمیشر ۔ ہمارا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جس کو وہ پکارتا ہے۔ اس نے اس کوسمجھاکیا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ کوئی نام لو، مگر یہ بتائو کہ تم اسے کہتے کیا ہو؟ اس کے صفات تم نے کیا قائم کئے ہیں؟ صفاتِ الہٰی کا مسئلہ ہی تو بڑا مسئلہ ہے۔ جس پر غور کرنا چاہیے۔ حق جو: مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ مذہب کا کام فطرت کو دُرست کرنا ہے۔ حضرت اقدس ؑ:اس وقت کوئی بادشاہ ہے ۔مثلاً شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم ہے۔ اب اگر کسی اور کو کہیں بھی توتکلفات سے کہیں گے ، مگر ہو نہیں سکتا۔ ہم یہی تو چاہتے ہیں کہ اس حقیقی خدا کی شناخت کیا جاوے اور باقی سب تکلفات چھوڑدیئے جائیں ، اس کا نام فطرت کی درستی ہے۔