رہے، تو سمندر میں غوطہ زنی سے کیا حاصل؟ مَیں مثال کے طور پر کہتاہوں مثلاً عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اسی طرح پر جس طرح عام انسان پیدا ہوتے ہیں اور کھاتا پیتاہگتا موتتا رہا۔ وہ خدا ہے۔ اب یہ تو ممکن ہے کہ ایک شخص کو اس سے محبت ہو، لیکن انسان دانش یہ کبھی تجویز نہیں کرتی کہ ایسا کمزور اور ناتواں انسان خدابھی ہوتا ہے۔ یا یہ کہ عورتوں کے پیٹ سے بھی خدا پیدا ہوا کرتے ہیں۔ جب کہ پہلا ہی قدم باطل پر پڑا ہے، تو دُوسرے قدم کی حق پر پڑنے کی کیا اُمید ہوسکتی ہے۔جوشعاعیں زندہ خدا کامِل صفات سے موصوف خدا کو مان کر دل پرپڑتی ہیں۔ وُہ ایک مرنے والی ہستی ، ضُعف و ناتوانی کی تصویر پرستی سے کہاں؟؟؟ الطالب لا مذھب لہ طالب کوتوسارے تعصب اور عقیدے چھوڑ دینے چاہیں۔پھروہ سچے عقائد کی طلب میں لگے۔ تب بہتری کی اُمید ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے بنیادی اینٹ خدا ہونی چاہیے۔ تب آخری اینٹ بھی خدا ہی ہوگی۔ جلد بازی اچھی چیز ہیں ہے۔ یہ عموماً بدقسمت انسان کی محرومی کا موجب ہوتی ہے۔ مثلاً اگر آپ ہماری صحبت میں نہ رہیں اور چلے جائیں اور دوچار باتیں بھی کہدیں کہ وہاں کیا تھا، کچھ نہ ملا، تو بتایئے ہمارا اس میں کیا نقصان ہوگا۔ دُنیا میں اس قسم کی باتیں کرنے والے بہت ہیں، لیکن محروم وبدقسمت ۔ دیکھو اقلیدس کی چند اشکال اگر ایک بچے کے سامنے رکھ دیں۔ ممکن ہے وہ بعض اشکال کو پسند کرے، لیکن اُن اشکال کی پسندیدگی ایسی نفع بخش تو نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ وہ ان کے نتائج سے بے خبر ہے اور نہیں جانتا کہ اُن سے کیا کیا فوائد پہنچ سکتے ہیں۔ میں نے اسلام پر اعتراض کرنے والے دیکھے بھی ہیں اور ان اعتراضوں کو جمع بھی کیا ہے جو اسلام پر کیے جاتے ہیں میں سچ کہتاہوں کہ جہاں ان ناواقفوں نے اعتراض کیا ہے وہیں حکمت کا خزانہ اور پیش بہا معارف اور حقائق کا دفینہ ہوتا ہے۔ ا کے ہاتھ میں بجز نادانی اور کورچشمی کے اور کچھ نہیں ہے۔ اعتراض کرکے انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ تاریک دماغ کے انسان ہیں اور کجر و طبیعت رکھتے ہیں؛ ورنہ وہ معارف اور حقائق کی معدن پر اعتراض نہ کرتے ،اس لیے مَیں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ نرمی اور تحمل کے ساتھ اصل حقیقت کی طلب میں لگیں۔ آپ خداجوئی کے طالب ہیں۔ آپ کے لئے عمدہ طریق یہی ہے کہ آپ پہلے تصحیح عقائد کریں۔ جس سے آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ وُہ خدا جس کی تلاش اور جستجو آپ کوہے۔ ہے کیا چیز؟ ا س سے آپ کی معرفت کو ترقی ملے گی اور معرفت میں جو قوتِ جذب محبت کی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یک محبت پیداکرنے کا موجب ہو گی۔ بُدوں اس کے محبت کا دعویٰ سنیروپھل کی طرح ہے جو چند روز کے بعد زائل ہوجاتا ہے۔