کو جو دڈھونڈتے ہیں وہ پاتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا۔ اے خواجہ دردنیست وگرنہ طبیب ہست خداجوئی کے آداب ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو شخص ہمارے پاس آتا ہے اور کھڑا کھڑا بات کرکے چل دیتا ہے، وہ گویا خداسے ہنسی کرتا ہے۔ یہ خدا جوئی کا طریق نہیں ہے۔اور نہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا قانون مقرر کیا ہے۔ پس اول شرط خدا جوئی کے لئے سچی طلب ہے۔ دوسری صبر کے ساتھ اس طلب میں لگے رہنا ۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر تجربہ بڑھتا جاتا ہے۔ پھر معرفت کے لئے زیادہ دیر تک صحبت میں رہنا ضروری ہوا یا نہیں؟ مَیں نے بہت سے آدمی دیکھے ہیں جو اپنی اوائل عمر میں دُنیا کو ترک کرتے اور چیختے اورچلاتے ہیں۔ آخر اُن کا انجام یہ دیکھا گیا کہ وہ دُنیا میں منہمک پائے گئے اور دُنیا کے کیڑے بن گئے دیکھو بعض درختوں کو سنیر و پھل لگا کرتے ہیں۔ جیسے شہتوت کے درخت کو عارضی طور پر ایک پھل لگتا ہے۔ آخر وہ سارے کا سار اگر جاتاہے۔ اس کے بعد اصل پھل آتا ہے۔ اسی طرح پر خدا جوئی بھی عارضی طور پر اندر پیدا ہوتی ہے۔ اگر صبر اور حسنِ ظن کے ساتھ صدق قدم نہ دکھایا جاوے ، تو وہ عارضی جوش ایک وقت میں آکر یہی نہیں کہ فروہوجاتا ہے، بلکہ ہمیشہ کے لئے دل سے محو ہوجاتا ہے اور دُنیا کا کیڑا بنادیتا ہے، لیکن اگر صدق و ثبات سے کام لیا جاوے تو اس عارضی جوش اور حق جوئی کی پیاس کے بعد واقعی اور حقیقی طور پر ایک طلب اور خواہش پید اہوتی ہے جو دن بدن ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی راہ میں اگر مشکلات اور مصائب کا پہاڑ بھی آجائے تو وہ کچھ بھی پروا نہیں کرتا اور قدم آگے ہی بڑھاتا جاتا ہے۔ پس وہ انسان جو اس جوش اور خواہش کے وقت صبر سے کام لے اور سمجھ لے کہ اس کو آخر عمر تک نبھانا ہے۔ وہ بہت ہی خوش طالع ہوتا ہے اور جو چند تجرے کرکے رہ جاتا ہے اور تھک کر بیٹھ رہتاہے تو اس کے ہاتھ میں صرف اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ وُہ کہتاپھرتا ہے کہ مَیں نے بہت سے باتونی دیکھے اور دوکاندار پائے ایک بھی حق نُما اور خدا نُما نہ ملا۔ پس میری تو یہ نصیحت ہے۔ مَیں نہیں جانتا(کہ ہر ایک جو میرے پاس آتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خدا کے لئے آیا ہے اور خد اکو پانا چاہتا ہے) اُس کا کیا حال ہے۔ اس کی نیت کیسی ہے۔ مگر مَیں اتنا ضرورکہتاہوں کہ جو اللہ تعالیٰ کی تلاش میں قدم اُٹھاوے۔ سب سے اول اس کو لازم ہے کہ تصحیح عقائدکرلے۔یہ معلوم کرے کہ کس خدا کو وہ پانا چاہتا ہے۔ آیا اس خدا کی تلاش میں وہ ہے جو واقعی دُنیا کا خالق اور مالک خدا ہے اور جو تمام صفاتِ کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں اورنقائص سے مبرا ہے۔ یا کسی عورت کے بچے خدا کی تلا ش میں ہے یا اور ایسے ہی کمزور اور ناتواں ۳۳کروڑ خدائوں کا جو یا ہے، کیونکہ اگر اصلی محبوب اور مقصود کنارے پر ہی پڑا