ہی تو محبت پیدا نہیں کرسکتا۔ جبتک اس کے متعلق معرفت نہ ہو۔ یقینا سمجھو کہ محبت بدُوں معرفت کے محال ہے جو محبوب ہے اس کی معرفت کے بغیر محبت کیا؟ یہ ایک خیالی بات ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو ایک عاجز انسان کو خدا سمجھ لیتے ہیں۔ بھلا وہ خدا میں کیا لذت پاسکتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں کہ حضرت مسیح ؑ کو خدا بنارہے ہیں۔ اور اس پر خدامحبت ہے۔ خدا محبت ہے پکارتے پھرتے ہیں۔ اُن کی محبت حقیقی محبت نہیں ہوسکتی۔ ایک ادعائی اور خیالی محبت ہے جب کہ خداتعالیٰ کی بابت ان کو سچی معرفت ہی نصیب نہیں ہوئی۔ محبت الہٰی کے ذرائع عقیدہ کی تصحیح۔ نیک صحبت۔ معرفت۔صبروحُسنِ ظن۔دُعا پس سب سے پہلے پھر یہ ضروری ہے کہ اول تصحیح عقیدہ کرے۔ ہندو کچھ اور پیش کرتے ہیں۔ عیسائی کچھ اور ہی دکھاتے ہیں۔ چینی کسی اور کو خدا پیش کرتے ہیں۔ مُسلمانوں کا وہی خدا ہے جس کو انہوں نے قرآن کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ جب تک اس کو شناخت نہ کیا جائے، خدا کے ساتھ کوئی تعلق اور محبت پیدا نہیں ہوسکتی۔ نرے دعوے سے کچھ نہیں بنتا۔ پس جب عقیدہ کی تصحیح ہوجاوے تو دُوسرا مرحلہ یہ ہے کہ نیک صُحبت میں رہ کر اس معرفت کو ترقی دی جاوے اور دُعا کے ذریعہ بصیرت مانگی جاوے۔ جس جس قدر معرف اور بصیرت بڑھتی جاوے گی۔ اسی قدر محبت میں ترقی ہوتی جائے گی۔ یادرکھنا چاہیے کہ محبت بدوں معرفت کے ترقی پذیر نہیں ہوسکتی۔انسان ٹین یالوہے کے ساتھ اس قدر محبت نہیں کرت جس قدرتانبے کے ساتھ کرتا ہے۔ پھر تانبے کو اس قدر عزیز نہیں رکھتا جتنا چاندی کو رکھتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ اس کو ایک معرفت ان دھاتوں کے بابت ملتی ہے جو اس کی محبت کو بڑھاتی ہے۔ پس اصل بات یہی ہے کہ محبت میں ترقی اورقدروقیمت میں زیادتی کی وجہ معرفت ہی ہے۔ اس سے بیشتر کہ انسان سرور اور لذت کا خواہشمند ہو اس کو ضرور ہے کہ وہ معرفت حاصل کرے، لیکن سب سے ضروری امر جس پر ان سب باتوں کی بنیاد رکھی جاتی ے۔ وہ صبر اور حُسنِ ظن ہے۔ جب تک ایک حیران کردینے والا صبر نہ ہو۔ کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ جب انسان محض حق جوئی کے لئے تھکانہ دینے والے صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور مجاہدہ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق اس برہدایت کی راہ کھول دیتا ہے۔ والذین جاھدو افینا لنھدینہم سبلنا۔(العنکبوت:۷۰) یعنی جو لوگ ہم میں ہوکر سعی اور مجاہدہ کرتے ہیں۔ آخر ہم ان کی اپنی راہوں کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ اُن پر دروازے کھولے جاتے ہیں۔ یہ سچی بات ہے