کی طرح نہ کسی رُوح (جیو)کو پیدا کرسکے۔ نہ مادہ کو اور ہ اپنے طلبگاروں کو اور صادقوں کو سچی شانتی اور ابدی مُکتی دے سکے۔نہیں بلکہ اسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے۔ جو اپنی قدرتوں اور طاقتوں میں بے نطیر اور لاشریک خدا ہے۔ مگر ہاں اس کا قانون یہی ہے کہ ہر ایک کام ایک کام ایک ترتیب اور تدریج سے ہوتا ہے۔ اس لیے صبر اور حُسن ظن سے اگر کام نہ لیا جائے کامیابی مشکل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ پہلے بزرگ پھونک مار کر آسمان پرپہنچادیئے تھے۔ مَیں نے کہا کہ تم غلطی کرتے ہو۔ خداتعالیٰ کا یہ قانون نہیں ہے۔ اگر ایک مکان میں فرش کرنے لگو ، تو پہلے ضروری ہوگا کہ اس میں کوئی حصہ قابلِ مرمت ہوتو اس کی مرمت کی جائے اور جہاں جہاں گندگی اور ناپاکی پڑی ہوئی ہو اس کو فینائل وغیرہ سے صاف کیا جائے۔ غرض بہت سے تدبیروں اور حیلوں کے بعد وہ اس قابل وہگ اکہ اس میں فرش بچھایاجائے۔ اسی طرح پر انسان کا دل اس سے پیشترکہ خداتعالیٰ کے رہنے کے قابل ہو۔ وہ شیطان کا تخت ہے او رسلطنت ِ شیطان میں ہے۔ اب دُوسری سلطنت کے لئے اس شیطانی سلطنت کا قلع قمع ضروری ہے۔
نہایت ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو حق کی طلب میں نکلے اور پھر حُسنِ ظن سے کام نہ لے۔ایک گل گوہی کو دیکھو کہ اس کو مٹی کا برتن بنانے میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ دھوبی ہی کو دیکھو کہ وہ ایک ناپاک اور میلے کچیلے کپڑے جب صاف کرنے لگتا ہے، تو کس قدر کام اس کو کرنے پڑتے ہیں۔ کبھی کپڑے کو بھٹی پر چڑھاتا ہے کبھی اس کو صابن لگا تا ہے۔ پھر اس کی میل کچیل کو مختلف تدبیروں سے نکالتا ہے۔آخر وہ صاف ہوکر سفیدنکل آتا ہے اور جس قدر میل اس کے اندر ہوتی ہے، سب نکل جاتی ہے۔ جب ادنیٰ ادنیٰ چیزوں کے لیے اس قدرصبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ تو پھر کس قدر نادان ہے وہ شخص جو اپنی زندگی کی اصلاح کے واسطے اور دل کی غلاظتوں اور گندگیوں کودُور کرنے کے لئے یہ خواہش کرے کہ یہ پھونک مارنے سے نکل جائیں اور قلب صاف ہوجائے۔
یادرکھو۔ اصلاح کے لئے صبر شرط ہے۔ پھر دُوسری بات یہ ہے کہ تزکیہ اخلاق اور نفس کا نہیںہوسکتا۔ جب تک کہ کسی مزکی نفس انسان کی صحبت میں نہ رہے۔ اول دروازہ جو کھلتا ہے، وُہ گندگی دُور ہونے سے کھلتا ہے۔ جن پلید چیزوں کو مناسبت ہوتی ہے وہ اندر رہتی ہیں۔ لیکن جب کوئی تریاقی صُحبت مل جاتی ہے، تو اندرونی پلیدی رفتہ رفتہ دُور ہونی شروع ہوتی ہے، کیونکہ پاکیزہ رُوح کے ساتھ جس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں رُوح القدس کہتے ہیں تعلق نہیں ہوسکتا جب تک کہ مناسبت نہ ہو۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تعلق کب تک پیدا ہو جاتا ہے۔ ہاں!’’ خاک شوپیش ازانکہ خاک شوی‘‘ پر عمل ہونا چاہیے۔ اپنے آپ کو اس راہ میں خاک کردے اور پورے صبر اور استقلال کے ساتھ اس راہ میں چلے۔آخر اللہ تعالیٰ اس کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور اس کو وُہ نور اور روشنی عطاکرے گا، جس کا وہ جو یا ہوتا ہے۔ مَیں تو حیران ہوجاتا ہوں اور کچھ سمجھ میں نہیںآتا