کی آواز میرے کان یں پڑی۔ میری رُوح نے غیر معمولی طور پر محسوس کیا کہ اس کلام میں لائٹ (نور) ہے اور یہ کہنے والا اپنے اندرروشنی ضروررکھتا ہے۔مَیں نے اس مضمون کو کسی مرتبہ پڑھا اور میرے دل میں قادیان آنے کی خواہش پیداہوئی، مگر لیکھرام کے قتل کے تازہ وقوعہ کے باعث لاہور میں مَیں اگر کسی مسلمان سے پتہ پوچھتا تھا ، تووہ پتہ نہ بتاتاتھا ۔ غالباً اس کو یہ وہم ہوتا ہوگا کہ شاید یہ مرزا صاحب کے قتل کو جاتا ہے۔ بہر حال میرے دل میں ایک کشمکش پیدا ہورہی تھی۔ اب وہ میری آرزو پوری ہوئی ے اورمَیں اپنی زندگی کو بنانا چاہتا ہوں۔ اسی غرض کے واسطے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ اس پر حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں ارشادفرمایا:
اسلام کی حقیقت ’’حقیت یہی ہے کہ انسان کو پوست اور چھلکے پرٹھہرنا نہیں چاہیے اور نہ انسان پسند کرتا ہے کہ وہ صرف پوست پر قناعت کرے۔ بلکہ وہ آگے بڑھنا چاہتاہے۔ اور اسلام انسان کو اسی مغز اور روح پر پہنچانا چاہتا ہے۔ جس کا وہ فطرتاً طلبگار ہے۔ یہ نام ہی ایسا نام ہے کہ اس کو سُن کرروح میں ایک لذت آتی ہے اور کسی مذہب کے نام سے کوئی تسلی رُوح میں پیدا نہیں ہوتی۔ مثلاً آریہ کے نام سے کون سی رُوحانیت نکالیں۔ اسلام سکینت، شانتی، تسلی کے لئے بنایاگیا ہے۔ جس کے واسطے انسان کی رُوح بھوکی پیاسی ہویت ہے تاکہ اس کا نام سننے والا سمجھ لے کہ اس کا مذہب کا سچے دل سے ماننے والا اور اس پر عمل کرنے والا خدا کا عارف ہے، مگر بات یہ ہے کہ اگر انسا ن چاہے کہ ایک دم میں سب کچھ ہوجائے اور معرفتِ الہٰی کے اعلیٰ مراتب پر یکدفعہ پہنچ جائے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا۔ دنیامیں ہر ایک کام تدریج سے ہوتا ہے۔ دیکھو کوئی علم اورفن ایسا نہیں جس کو انسان تامل اور توقف سے نہ سیکھتا ہو۔ ضروری ہے کہ سلسلہ وار مراتب کوطے کرے۔ دیکھو! زمیندار کو زمین میں بیج بوکر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اول وہ اپنی عزیز شے اناج کو زمین ڈال دیتاہے جس کو فوراً جانور چُگ جائیں یا مٹی کھالے۔ یاکسی اور طرح ضائع ہوجائے مگر تجربہ اس کو تسلی دیتا ہے کہ نہیں ایک وقت آتا ہے کہ یہ دانے جو اس طرح پر زمین کے سپردکیے گئے ہیں۔ بارور ہوں گے اور یہ کھیت سرسبز لہلہاتا ہوا نظرآئے گا اور یہ خاک آمیختہ بیج رزق بن جائیں گے۔
اصلاح کے لئے صبر شرط ہے اب آپ غور کریں کہ دنیاوی اور جسمانی رزق کے لئے جس کے بغیر کچھ دن آدمی زندہ بھی رَہ سکتا ہے پھ مہینے درکار ہیں۔
حالانکہ وہ زندگی جس کا مدار جسمانی رزق پر ہے اَبدی نہیں، بلکہ فنا ہوجانے والی ہے۔ پھر رُوحانی رزق جو رُوحانی زندگی کی غذا ہے جس کو کبھی فنا نہیں او روُہ ابدالآباد کے لئے رہنے والی ہے۔ دوچاردن میں کیونکرحاصل ہو سکتا ہے؛ اگرچہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک دم میں جو چاہے کردے اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کے نزدیک کوئی چیز انہونی نہیں۔ اسلام نے ایساخدا پیش ہی نہیں کیا جو مثلاً آریوں کے پیش کردہ پرمیشر