ایک پر چڑھتا ہے وُہ دُوسرے پر چڑھ سکتا ہے۔ اگر نبی کی بات دوسرے میں نہ آسکے، تو اس کا وجود بے فائدہ ہو۔ ایک صُوفی ابن حزم نے لکھا ہے کہ مَیں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معانقہ کیا۔ یہاں تک کہ مَیں خود رسول اللہ ہوگیا۔‘‘ مارچ ۱۹۰۱؁ء ایک متلاشی حق کا حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں آنا چند روزے حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں جُو ضلع گجرات سے  آیاہوا ہے۔ اس نے عرض کی کہ مجھے ابتداسے ہی دھرم بھائو اپنے اندر محسوس ہوتاتھا اور اُس کے موافق میں اپنے خیال میں بعض نیکیاں بھی کرتا رہا ہوں، مگر مجھے دُنیا اور اس کے طلبگاروں کو اپنے اردگرد دیکھ کربہت بڑی تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اپنے اندر بھی ایک کشمکش پاتا ہوں۔ مَیں ایک بار دریائے جہلم کے کنارے کنارے پھر رہا تھا کہ مجھے ایک عجیب نظارہ پریم (محبت) کا دکھایاگیا تھا ۔ جس سے مجھے ایک لذت اور سُرور محسوس ہوتا تھا۔ جس طرف نظر اُٹھاتا تھا آنند ہی آنند ملتا تھا۔ کھانے میں ، پینے میں ، چلنے میں، پھرنے میں، غرض ہر ایک حرکت میں ہراَدا میں پریم ہی پریم معلوم ہوتا تھا، چند گھنٹوں کے بعدیہ نظارہ تو جاتا رہا، مگر اس کا بقیہ ضرور دو ماہ تک رہا۔ یعنی اس نظارہ سے کم درجہ کا سرور دینے والا نظارہ۔ اس وقت مَیں عجیب گھبراہٹ میں ہوں۔ مَیں نے بہت کوشش کی کہ مَیں اِس کو پھر پائوں، مگر نہیں ملا۔ اسی کی طلب اور تلاش میں مَیں لاہور بابوا بناش چندرفورمین صاحب کے پاس آیا۔ جو برہم سماج کے سرگرم ممبر ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ وُہ مجھ سے بجز چند منٹ کے اور وُہ بھی اپنے دفتر میں ہی نہ مل سکے۔ پھر مَیں پنڈت شونرائن ستیاننداگنی ہوتری کے پاس گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ وُہ لوگ کسی قدر رُوحانیت کو محسوس کرتے ہیں۔ آخر مَیں کوئی دو مہنے تک ان کے ہائی سکول موگا میں بطور تھرڈ ماسٹر کام کرتا رہا اور اپنی اصلاح میں لگا رہا۔ وہاں جانا میرا صرف اس مطلب کے لئے تھاکہ مَیں اپنی لائف کو بنائوں۔ اس عرصہ میں کچھ مختصر سا نظارہ نظرآنے لگا، مگر میری تسلی اور اطمینان نہیں ہوا۔ جس شانتی اور پریم کا مَیں خواہش مند اور جو یا تھا وہ مجھے نہ ملا؛ اگرچہ مَیں صبر کے ساتھ وہاں رہنا چاہتا تھا، مگر بیمار ہوکر مجھے آنا پڑا۔ مَیں نے اپنے شہر میں شیخ مولابخش صاحب کو ایک مرتبہ جلسۂ اعظم مذاہب والا آپ کامضمون پرھتے ہوئے سُنا۔ مَیں اپنے خیال میں مَست اور متفکرجارہا تھا کہ اُن