اُن کی اجتہادی غلطی تھی۔ بعد اس کے خدا نے مطلع کردیا اور انہوں نے اقرارکیا کہ میری بادشاہت رُوحانی ہے۔ سادگی انسان کا فخر ہوتاہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے جو کہا سو سادگی سے کہا۔ اس سے ان کی خفت اور بے عزتی نہیں ہوتی۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہ سمجھا تھا کہ ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی۔ مگر ہجرت مدینہ طیبہ کی طرف ہوئی اور انگوروں کے متعلق آپؐ نے یہ سمجھا تھا کہ ابوجہل کے واسطے ہیں۔ بعد میں معلوم ہو اکہ عکرمہ کے واسطے ہیں۔ انبیاء ؓ کے علم میں بھی تدریجاً ترقی ہوتی ہے۔ اس واسطے قرآن شریف میں آیا ہے قل رب زدنی علماً (طہ:۱۱۵) یہ آپؐ کا کمال اور قلب کی طہارت تھی جو آپؐ اپنی غلطی کا اقرار کرتے تھے۔ اس میں انبیاء ؐ کی خفِّت کچھ نہیں۔ ایک حکیم ہزاروں بیماروں کا علاج کرتا ہے۔ اگر ایک اُن مین سے مرجائے تو کیا حرج ہے۔ اس سے اُس کی حکمت میں کچھ داغ نہیں آجاتا۔ کبھی حافظ قرآن کو پیچھے سے لقمہ دیا جاتا ہے۔ تو اس سے یہ نہیں کہا جاتا کہ اب وُہ حافظ نہیں رہا۔ جو باتیں متواتر اور کثرتے سے ہوتی ہیں اُن پر حکم لگایا جاتا ہے۔‘‘
اخلاص والے کو خداضائع نہیں کرتا فرمایا:
’’اخلاص والے کو خداضائع نہیں کرتا۔ ہمارے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس جنگل میں پیدا ہوئے تھے۔ پھر خدا نے کیا کیا سامان بنادیئے۔ ایک آدمی کا قابو کرنا مشکل ہوتاہے۔ کتنے آدمی آپؐ کے ساتھ ہوگئے تھے۔ ہمارے متعلق اللہ تعالیٰ کی وحی ہے۔ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘ آخرمرید ہی ہوں گے تو ایساکریں گے۔ اس زمانہ میں دیکھو لوگ کیسی بے عزتی کرتے ہیں، مگراس زمانہ میں جو ثواب ہے وُہ پھر نہ ہوگا۔
یکم مارچ ۱۹۰۱ء
نماز کا اخلاص سے تعلق فرمایا:
’’نماز دُعا اور اخلاص کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ مومن کے ساتھ کینہ جمع نہیں ہوتا۔متقی کے سوا دُوسرے کے پیچھے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
۳؍مارچ۱۹۰۱ء
کمال ختم نہیں ہوتا فرمایا:
’’ختمِ ایمان یا ختمِ کمال نہیں ہوجاتا۔ خدا کی جناب میں بُخل نہیں ۔جو رنگ