نہیں ہے اور نہ ایسوں پر قرآن شریف کھلتا ہے ۔ میرا ارادہ ہے کہ اس قسم کی تفسیر بنادوں۔ نرا فہم اور اعتقاد نجات کے واسطے کافی نہیں۔ جب تک کہ وہ عملی طور پر ظہور میں نہ آوے۔ عمل کے سوا کوئی قول جان نہیں رکھتا۔ قرآن شریف پر ایس اایمان ہونا چاہیے کہ یہ درحقیقت معجزہ ہے اور خد اکے ساتھ ایسا تعلق ہو کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے۔ جب تک لوگوں میں یہ بات پیدا نہ ہوجائے ، گویا جماعت نہیں بنی۔ اگر کسی سے ایسی غلطی ہوکہ وہ صرف ایک غلط خیال کی وجہ سے ایک امر میں ہماری مخالفت کرتا ہے، تو ہم ایسے نہیں ہیں کہ ہم اس پر ناراض ہوجائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کمزوروں پر رحم کرنا چاہیے۔ ایک بچہ اگر بستر پر پاخانہ پھردے او رماں غصہ میں آکر اس کو پھینک دے، تو وہ خون کرتی ہے۔ ماں اگر بچہ کے ساتھ ناراض ہونے لگے اور ہرروز اس سے روٹھنے لگے۔ تو کام کب بنے۔ وُہ جانتی ہے کہ یہ ہنوز نادان ہے۔ رفتہ رفتہ خدا اس کو عقل دے گ اور کوئی وقت آتا ہے کہ یہ سمجھ لے گا کہ ایساکرنا نامناسب ہے۔ سو ہم ناراض کیوں ہوں ۔ اگر ہم کذب پر ہیں، تو خود ہمارا کذب ہمیں ہلاک کرنے کے واسطے کافی ہے۔ ہم اس راہ پر قدم مارنے والے سب سے پہلے نہیں ہیں۔ جو ہم گھبراجائیں کہ شاید حق والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیامعاملہ ہوا کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سنت اللہ کیا ہے ۔سرورِ انبیاء ؐ پر کروڑوں اعتراض ہوئے۔ ہم پرتو اتنے ابھی نہیں ہوئے۔ بعض کہتے ہیں کہ جنگ اُحدْمیں آپ ؐ کو ۷۰ تلواریں لگی تھیں۔ صدق کا بیج ضائع ہوتا۔ ابوبکری طبیعت تو کوئی ہوتی ہے کہ فوراً مان لے۔ طبائع مختلف ہوتی ہیں۔ مگر نشان کے ساتھ کوئی ہدایت نہیںپاسکتا۔ سکینت باطنی آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ تصرفاتِ باطنی یک دفعہ تبدیلی پیدا کردیتے ہیں۔ پھر انسان ہدایت پاتا ہے۔ ہدایت امرِ ربی ہے۔ اس میں کسی کو دخل نہیں۔ میرے قابو می ہوتو مَیں سب کو قُطب اور ابدال بنادُوں۔ مگر یہ اَمر محض خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ہاں دُعا کی جاتی ہے۔
صُلح کی دعوت ہم تیا رہیں کہ ہمارے مخالف ہمارے ساتھ صُلح کرلیں۔ میرے پا س ایک تھیلہ اُن گالیوں سے بھرے ہوئے کاغذات کا پڑا ہے۔ ایک نیا کا غذ آیا تھا۔وہ بھی آج مَیں نے اس میں داخل کردیا ہے۔ مگر ان سب کو ہم جانے دیتے ہیں۔ اپنی جماعت کے ساتھ اگرچہ میری ہمدردی خاص ہے۔ مگر مَیں سب کے ساتھ ہمدردی کرت اہوں اور مخالفین کے ساتھ بھی میری ہمدردی ہے۔ جیسا کہ ایک حکیم تریاق کا پیالہ مریض کو دیتا ہے کہ وہ شفا پاوے، مگرمریض غصہ میں آکر اس پیالہ کو توڑدیتاہے۔توحکیم اس پر افسوس کرا ہے اوررحم کرتا ہے۔ ہمارے قلم سے مخالف کے حق میں جو کچھ الفاظ سخت نکلتے ہیں۔ وہ محض نیک نیتی سے نکلتے ہیں۔ جیسے ماں بچہ کو کبھی سخت الفاظ بولتی ہے، مگر اس کا دل درد سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ صادق اور کاذب کامعاملہ خدا کے نزدیک ایک نہیں ہوتا۔ خدا جس کو محبت کے ساتھ دیکھتاہے۔ اس کے ساتھ اوردُوسروں کے ساتھ اس کا ایک سلوک نہیں ہوتا۔ کیا سب کے ساتھ اس کامعاملہ ایک ہی