کرنے سے پہلے دو تین دن آرام کرلیتے، مگر جی نہیں چاہتا کہ خالی بیٹھے رہیں۔ مثنوی مولانا رُوم میں لکھا ہے کہ ایک بیماری ہوتی ہے کہ انسان چاہتاہے کہ اس کو ہر وقت کوئی مُکیاں مارتا رہے۔ ایساہی اہل اللہ کا حال ہوتا ہے کہ وُہ آرام نہیں کرسکتے۔ کبھی خدا ان پر محنت نازل کرتا ہے اور کبھی وہ آپ کوئی ایسا کام چھیڑ بیٹھتے ہیں ۔ جس سے ان پر محنت نازل ہو۔ نہایت درجہ برکت کی بات یہ ہے کہ انسان خدا کے واسطے کسی کام میں لگا رہے جو دن بغیر کسی کام کے گزر جائے وُہ گویاغم میں گزرتا ہے۔ اس سے زیادہ دُنیا میں کچھ حاصل نہیں کہ انسان خداکے واسطے کام کرے اور خدا کے واسطے راستہ کھول دے اور اُسے مدد عطافرماوے۔ مگر بغیر اخلاص کے تمام محنت بے فائدہ ہے۔ خالصتہً للہ کام کرنا چاہیے۔ کوئی اور غرض درمیان میں نہ آوے۔‘‘ ۲۵؍فروری ۱۹۰۱؁ء جماعت کو اہم نصیحت اپنی جماعت کے لوگوں کو باہم محبت کرنے اور رُوحانی کمزوریوں کے سامنے نرمی کا برتائو کرنے کا حکم کرتے ہوئے اور اُس درد دل کا اظہار کرتے ہوئے جو کہ آپ کو اپنی جماعت کی بہتری کے واسطے ہے فرمایا: ’’مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وُہ اپنے میں سے کمزور اور کچے لوگوں پر رحم کریں۔ اُن کی کمزوری کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ اُن پر سختی نہ کریں اور کسی کے ساتھ بداخلاقی سے پیش نہ آئیں۔ بلکہ اُن کو سمجھائیں۔ دیکھو صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی بعض منافق آکر مل جاتے تھے۔ پرحضرت رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ان کے ساتھ نرمی کا برتائو کرتے ؛ چنانچہ عبداللہ ابن اُبی جس نے کہا تھ اکہ غالب لوگ ذلیل لوگوں کو یہاں سے نکال دیں گے؛ چنانچہ سورۂ منافقون میں درج ہے اور اس سے مُراد اس کی یہ تھی کہ کفار مسلمانوں کو نکال دیں گے۔ اس کے مرنے پر حضرت رسول کریمؐ نے اپنا کُرتہ اس کے لئے دیا تھا۔ مَیں نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ مَیں دُعا کے ساتھ اپنی جماعت کی مدد کروں۔ دُعا کے بغیر کام نہیں چلتا۔ دیکھو صحابہ ؓ کے درمیان بھی جو لوگ دُعا کے زمانہ کے تھے، یعنی مکی زندگی کے ۔ جیسی اُن کی شان تھی ویسی دُوسروں کی نہ تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ جب ایمان لائے تھے، تو اُنہوں نے کیا دیکھا تھا۔ انہوں نے کوئی نشان نہ دیکھا تھا، لیکن وہ