اخیار میں خونی دشمنی کبھی نہیں ہوتی سوال ہوا کہ ابتدا میں بھی مسلمانوں کے درمیان آپس میں عداوت اور دشمنیاں ہوتی رہی ہیں اور اختلاف رائے بھی ہوتا رہا ہے، مگر باوجود اس کے ہم کسی کوکافر نہیں کہہ سکتے۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا: ’’یہ تو شیعوں کا مذہب ہے کہ صحابہ ؓ کے درمیان آپس میں ایسی سخت دشمنی تھی، یہ غلط ہے۔ اللہ تعلایٰ آپ اس کی تردید فرماتا ہے کہ نزعنا مافی صدورِ ھم من غل (الحجر:۴۸) برادریوں کے درمیان آپس میں دشمنیاں ہوا کرتی ہیں۔ مگر شادی، مرگ کے وقت وہ سب ایک ہوجاتے ہیں۔ اخیار میں خونی د شمنی کبھی نہیں ہوتی۔ منعم علیہ کون ہیں سوا ل ہوا کہ جو لوگ آپ کو کافر نہیں کہتے، مگر آپ کے مُرید بھی نہیں ہیں۔ اُن کا کیا حال ؟ حضرت صاحب نے فرمایا: ’’وہ لوگ راہ ورسم اور تعلقات کس کے ساتھ رکھتے ہیں۔ آخر ایک گروہ میں اُن کو ملناپڑے گا۔ جس کے ساتھ انسان اپنا تعلق رکھتا ہے اُسی میں سے وہ ہوتا ہے۔‘‘ سوال ہوا کہ جو لوگ آپ کو نہیں مانتے وہ انعمت علیہم کے نیچے ہیں یا کہ نہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ: ’’انعمت علیہم میں تو مَیں اپنی جماعت کو بھی شامل نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ خدا کسی کو نہ کرے جو کلمہ گو سچے دل سے قرآن پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو بشرطیکہ سمجھایا جاوے وہ اپنا اجر پائے گا۔ جس قدر کوئی مانے گا۔ اسی قدر ثواب پائے گا۔ جتنا انکار کرے گا۔ اتنی ہی تکلیف اُٹھائے گا۔ مَیں قسماً کہتاہوں کہ مجھے لوگوں کے ساتھ کوئی عداوت نہیں جو ہمیں کافر نہیں کہتے۔ اُن کے دلوں کا خدا مالک ہے، مگر حضرت مسیح ؑ کا خالق اور حی ماننا بھی تو ایک شِرک ہے۔ اگر وہ کہیں کہ خدا کے اِذن سے کرتا تھا، تو ہم کہتے ہیں کووُہِ اذن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ دیا گیا۔ جو خدا کے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے خدا اس کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔ جس کے ساتھ خداجنگ کرے اس کا ایمان کہاں رہا۔‘‘ ایک الہام ۲۳؍فروری ۱۹۰۱؁ء حضرت اقدس ؑ کو الہام ہوا۔ کفینا ک المستھزئین۔