کے واسطے فیلڈ میں تشریف لے گئے۔ حضرت اقدس ؑ کے ایک صاحبزادہ نے بچپن کی سادگی میںآپ ؑ کو کہا کہ ابا تم کیوں کرکٹ پر نہیں گئے۔ آپؑ اس وقت تفسیرفاتحہ لکھنے میں مصروف تھے ۔ فرمایا: ’’وُہ توکھیل کر واپس آجائیں گے، مگر مَیں وُہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گا۔‘‘ ۱۶؍فروری ۱۹۰۱؁ء فاتحہ خلف الامام اس بات کا ذکر آیا کہ جوشخص جماعت کے اندر رُکوع میں آکر شامل ہو اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں۔ حضرت اقدس ؑ نے دُوسرے مولویوںکی رائےدریافت کی۔ مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب اس امر کے متعلق بیان کیے گئے۔ آخرحضرت ؑ نے فیصلہ دیا اور فرمایا: ’’ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لاصلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔ آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو۔ ہرحالت میں اس کو چاہیے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے، مگر امام کو نہ چاہیے کہ جلدی جلدی سورۃ فاتحہ پڑھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تاکہ مقتدی سُن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے۔ بہر حال مقتدی کو یہ موقع دیناچا ہیے کہ وہ سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ وہ اُم الکتاب ہے ، لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتاہے آخر رکوع میں ہی آکر ملا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا، تو اس کی رکعت ہوگئی؛ اگرچہ اس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پالیا۔ اس کی رکعت ہوگئی۔ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں۔ ایک جگہ تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تاکید کی۔ نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں۔ وُہ اُم الکتاب ہے۔ اور اصل نماز ہی ہے، مگر جو شخص باوجود اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آکر ملا ہے، تو چونکہ دین کی بناء آسانی اور نرمی پر ہے اس واسطے حضرت رسول کریمؐ نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی۔ وُہ سورۃ فاتحہ کا منکر نہیں ہے۔ بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رُخصت پر عمل کرتا ہے۔ میرا دل خدا نے ایسابنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہوجاتی ہے اور میرا جی نہیںچاہتا کہ مَیں اُسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پالیا اور ایک حصہ میں بہ سبب کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا ہے، تو کیا حرج ہے۔ انسان کو چاہیے کہ رُخصت پر عمل کرے۔ ہاں جو شخص عمداً سُستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل