سے پوچھا کہ آپ کو کوئی حاجت ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا بلیٰ ولکن الیکم لا ہاں حاجت تو ہے ،مگر تمہارے آگے پیش کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ فرشتوں نے کہا اچھا خداتعالیٰ کے ہی آگے دُعا کرو۔ تو حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا۔ علمہ من حالی حسبی من سوالی۔ وہ میرے حال سے ایسا واقف ہے کہ مجھے سوال کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
۱۴؍فروری ۱۹۰۱ء
ابتلاء اس بات پر ذکر کرتے ہوئے کہ مومنین پر تکالیف اور ابتلاآیا کرتے ہیں۔ فرمایاہے:
ایک شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنی لڑکی کا آنحضرت کے
ساتھ نکاح کے واسطے عرض کیا او رمنجملہ اس لڑکی کی تعریف کے ایک یہ بات بھی عرض کی کہ وُہ اتنی عمر کی ہوئی ہے، مگر آج تک اس پر کوئی بیماری وارد نہیں ہوئی۔ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو لوگ خدا کے پیارے ہوتے ہیں۔ ان پر خدا کی طرف سے ضرور تکالیف اور ابتلاء آیا کرتے ہیں۔‘‘
(احباب میں سے ایک کو مخالفین کی طرف سے بہت تکالیف پہنچی ہیں۔ اس نے اپنا حال عرض کیا۔فرمایا
’’آپ نے بہت تکالیف اُٹھائی ہیں۔ یہ بات آپ میں قابلِ تعریف ہے جس قدر ابتلاء ہو اہے، اسی قدر انعام بھی ہوگا۔ ان مع العسر یسراً۔ (الم نشرح:۷)
مخالفین سے برتائو بعض مخالفین جو ہمارے دوستوں کے ساتھ سختی کرتے ہیں اور ان کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اس کے ذکر میں اپنے دوستوں کو نرمی اور درگذر اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’مخالفوں کے مقابلہ میں جوش نہیں دکھانا چاہیے۔ خصوصاً جو جوان ہیں۔ ان کو مَیں نصیحت کرتا ہوں۔ ضروری ہے کہ تم جلدی جلدی میرے پاس آئو۔ معلوم نہیں کہ تم کتنا زمانہ میرے بعد بسرکرو گے۔ پا س رہنے میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ انسان اگر رُو بخدا ہو ، تو وُہ تفسیر مجسم ہوتاہے او رپاس رہنے میں انسان بہت سے باتیں دیکھ لیتا ہے