کرے۔ خدا سے دُعا مانگی جاتی ہے اور میرا تجربہ ہے کہ جب خدا سے مدد مانگی جاتی ہے ، تو وُہ مدد دیتا ہے۔ (تفسیر سے پہلے جوتمہید حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھی ہے۔ اس کے متعلق حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب نے عرض کی کہ پیر گولڑوی تفسیر نویسی سے پہلے ایک تقریر اور مباحثہ چاہتا تھا۔ سو اس تمہید میں یہ بھی ہوگیا۔ حضرت سید احمدشہید ؒ اور مولوی محمد اسمعیل ؒ شہید کا ذکر درمیان میں آیا۔)فرمایا: ’’ان لوگوں کی نیتیں نیک تھیں، وہ چاہتے تھے کہ ملک میں نماز اور اذان اور قربانی کی رکاوٹ جو کہ سکھوں نے کر رکھی تھی دپور ہوجائے۔ خدا نے اُن کی دُعاکو قبول کیا اور اس کی قبولیت کو سکھوں کے دفعیہ اورانگریزوں کو اس ملک میں لانے سے کیا۔ یہ اُن کی دانائی تھی کہ انہوں نے انگریزوں کے ساتھ لڑائی نہیں کی۔ بلکہ سکھوں کو اس قابل سمجھا کہ کہ اُن کے ساتھ جہاد کیا جاوے مگر چونکہ وہ زمانہ قریب تھا کہ مہدی موعود کے آنے سے جہاد بالکل بند ہو جائے۔ اس واسطے جہاد میں اُن کو کامیابی نہ ہوئی۔ ہاں بسبب نیک نیت ہونے کے اُن کی خواہش اذانوں اور نمازوں کے متعلق اس پوری ہوگئی کہ اس ملک میں انگریز آگئے۔ پھر فرمایا:۔ مسیح موعود اور مہدی کے آنے کا وقت ’’وقت دو ہوتے ہیں۔ ایک خارجی اور ایک اندرونی یعنی رُوحانی۔ خارجی وقت یہ ہے کہ رسول کریم ؐ اور دلیوں ور بزرگوں کے کشوف نے مسیح موعود اور مہدی کا وقت چودہویں صدی بتلایا اور اندرونی یعنی روحانی وقت یہ ہے کہ زمانہ کی حالت یہ بتلارہی ہے کہ اس وقت مسیح آنا چاہیے۔ دونوں وقت اس جگہ آکر مل گئے ہیں۔‘‘ ۲۲؍جنوری ۱۹۰۱؁ء جماعتِ احمدیہ کی وجہ تسمیّہ (اس جماعت کا نام احمدی رکھا جانے پر کسی نے سُنایا کہ کوئی اعتراض کرتاتھا کہ یہ نیا نام ہے۔ اس پر کچھ گفتگو ہوئی۔)  فرمایا:’’لوگوں نے جو اپنے نام حنفی شافعی وغیرہ رکھے ہیں۔ یہ سب بدعت ہیں۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہی نام تھے۔ محمد اور احمدصلی اللہ علیہ وسلم۔آنحضرت ؐ کا اسمِ اعظم محمد ؐ ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم اللہ ہے۔ اس اللہ دیگر کل اسماء مثلاً حی، قیوم، رحمن،رحیم وغیرہ کا موصوف ہے۔ حضرت رسول کریم ؐ