اور دعووں کے ساتھ علمی معجزات ہماری تائید میں دکھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ مخالفوں میں کوئی عالم نہیں ہے اور یہ بات غلط ہے کہ عالموں نے ہماری مخالفت کی ۔‘‘ ۱۵جنوری۱۹۰۱؁ء ایک عظیم معجزہ فرمایا: ’’آج رات کو الہام ہوا۔منعہ مانع من السماء یعنی اس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا مقابلہ نہ کر سکے گا ۔خدا نے مخالفین سے سلب طاقت اور سلب علم کر لیا ہے؛اگرچہ ضمیر واحد مذکر غائب اور شخص مہشاہ کی طرف ہے۔لیکن خدا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ اس شخص کے وجود میں تمام مخالفین کا وجود شامل کر کے ایک ہی کا حکم رکھا ہے۔تاکہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور اعظم سے اعظم معجزہ ثابت ہو کہ تمام مخالفین ایک ہی وجود یا کئی جان ایک قالب بن کر اس کی تفسیر کے مقابلے میں لکھنا چاہیں تو ہر گز نہ لکھ سکیں گے۔‘‘ فرمایا:’’انسان کا کام انسان کر سکتا ہے ۔ہمارے مخالف انسان ہین اور عالم اور مولوی کہلاتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ جو کام ہم نے کیا وہ نہیں کر سکتے۔یہی ایک معجزہ ہے۔نبی اگر ایک سونٹا بھی پھینک دے اور کہے کہ میرے سوا کوئی بھی اسے اٹھا نہ سکے گا ۔تو یہ بھی ایک معجزہ ہے؛چہ جائیکہ کہ تفسیر علمی تو ایک معجزہ ہی ہے۔‘‘ فرمایا:’’یہ تفسیر رمضان شریف میں شروع ہوئی جیسا کہ قرآن شریف رمضان شریف میں شروع ہوا تھا اور امید ہے کہ دو عیدوں کے درمیاں ختم ہو گی۔جیسا کہ شیخ سعدی نے کسی کے متعلق کہا ہے ؎ بروز ہمایوںوسال سعید بتاریخ فر خ میان دو عید فرمایا:’’قرآن شریف کے معجزہ فصاحت و بلاغت کے جواب میں ایک دفعہ پادری فنڈر نے حریری اور ابوالفضل اور بعض انگریزی کتابوں کو پیش کیا تھا۔ مدت کی بات ہے۔ ہم نے اس وقت بھی یہی سوچا تھا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے۔ کیونکہ اول تو ان مصنفین کو کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ ان کا کلام بے مثل ہے، بلکہ وہ خود اپنی کم مائیگی کا ہمیشہ اقرار کرتے رہے ہیں اور قرآن شریف کی تعریف کرتے ہیں۔ دوسرا ان لوگوں کی کتابوں میں معنٰی الفاظ کے تابع ہوکرچلتا ہے۔ صرف الفاظ جوڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ قافیہ کے واسطے ایک لفظ کے مقابل دُوسرا لفظ تلاش کیا جاتا ہے اور کلام میں حکمت اور معارف کا لحاظ نہیں ہوتا اور قرآن شریف میں التزام ہے حق اور حکمت کا۔اصل میں اس بات کا نباہنا کہ حق اور حکمت کے کلمات کے ساتھ قافیہ بھی دُرست ہو۔ یہ بات تائید الہٰی سے حاصل ہوتی ہے؛ ورنہ انسانوں کے کلام ایسے ہوتے ہیں جیساکہ حریری وغیرہ۔