کسی عزیز کے جدا ہونے پر اس قدر دکھ ہوتا ہے کہ جیسا کہ کسی کو اپنی عزیز سے عزتز اولاد مر جانے کا ہوتا ہے۔
ثمرات میں اولاد بھی داخل ہے اور محنتوں کے بعد آخر کی کامیابیاں بھی مراد ہیں۔ان کے ضائع ہونے سے بھی سخت صدمہ ہوتا ہے۔امتحان دینے والے اگر کبھی فیل ہو جاتے ہیں تو بار ہا دیکھا گیا ہے کہ وہ خود کشیاں کر لیتے ہیں۔ایوب بیگ کی بیماری کی ترقی میں فیل ہو جانے ہی سے ہوئی ہے پہلے تو اچھا خاصہ تندرست تھا۔
غرض اس قسم کے ابتلاء جن پر آئیں۔پھر اللہ تعالیٰ ان کو بشارت دیتا ہے وبشر الصابرین یعنی ایسے موقعہ پر جہد کے ساتھ برداشت کرنے والوں کو خوشخبری اور بشارت ہے۔کہ جب ان کو کوئی مصیبت آتی ہے تو تو کہتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون۔یاد رکھو کہ خدا کا خاص بندہ اور مقرب اس وقت ہی ہوتا ہے کہ ہر مصیبت پر خدا ہی کو مقدم رکھے۔غرض ایک وہ حصہ ہوتا ہے جس میں خدا اپنی منوانا چاہتا ہے۔دعا کے معنی تو یہی ہیں کہ انسان خواہش ظاہر کرتا ہے کہ یوں ہو۔پس کبھی مولیٰ کریم کی خواہش مقدم ہونی چاہیے اور کبھی اللہ کریم اپنے بندے کی خواہش کو پورا کرتا ہے۔
دوسرا محل معاوضہ کا یہ ہے کہ اد عونی استجب لکم ( المومن:۶۱)اس میں تناقض نہیں ہے۔جب جہات مختلف ہوں،تو تناقض نہین رہا کرتا ۔اس محل پر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مانتا ہے۔
قبولیت دعا کی شرط یہ خوب یاد رکھو کہ انسان کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے کہ جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے غفلت فسق وفجور چھوڑ دے۔جس قدر قرب الہی انسان
حاصل کرے گا اسی قدر قبولیت دعا کے ثمرات سے حصہ لے گا۔اسی لئے فرمایا :واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبو الی والیومنو ا بی لعلہم یر شدون(البقرہ:۱۸۷)اور دوسری جگہ فرمایا ہے:وانی لہم التناوش من مکان بعید(سبا:۵۳)یعنی جو مجھ سے دور ہوا ۔اس کی دعا کیوں کر سنو ں۔یہ گویا عام قانون قدرت کے نظارہ سے ایک سبق دیا ہے۔یہ نہیں کہ خدا نہیں سن سکتا۔وہ تو دل کے مخفی در مخفی ارادوں اور ان ارادوں سے بھی واقف ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔مگر ئیہاں پر انسان کو قرب الہی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جیسے دور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔اسی طرح پر جو شخص غفلت اور فسق وفجور میں مبتلا رہ کر مجھ سے دور ہو جاتا ہے۔جس قدر وہ دور ہوتا ہے اسی قدر حجاب اور فاصلہ اس کی دعاؤں کی قبولیت میں ہوتا جاتا ہے کیا سچ کہا ہے ؎
پیدا است ندارا کہ بلند ہست جنابت
جیسے میں نے ابھی کہا گو خدا عالم الغیب ہے ،لیکن یہ قانون قدرت ہے کہ تقویٰ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔