ہے۔جب میں اس فلسفہ دعا پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ علیم اور خبیر خدا جانتا ہے کہ کونسی دعا مفید ہے۔ آداب دعا مجھے بار ہا افسوس آتا ہے ۔جب لوگ دعا کے لئے خطوط بھیجتے ہیں۔اور ساتھہی یہ لکھ دیتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے یہ دعا قبول نہ ہوئی تو ہم جھوٹاسمجھ لیں گے۔آہ! یہ لوگ آداب دعا سے کیسے بے خبر ہیں۔نہیں جانتے کہ دعا کرنے والے اور کرانے والے کے لئے کیسی شرائط ہیں۔اس سے پہلے کہ دعا کی جاوے یہ بد ظنی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے ماننے کاحسان جتانا چاہتے ہیں اور نہ ماننے اور تکذیب کی دھمکی دیتے ہیں۔ایسا خط پڑھ کر مجھے بد بو آجاتی ہے اور مجھے خیال آجاتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ یہ دعا کے لئے خط ہی نہ لکھتا ۔ میں نے کئی بار اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور پھر مختصر طور پر سمجھاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔دوستوں میں ایک سلسلہ تبادل کا رہتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں میں بھی اسی رنگ کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبادلہ یہ ہے کہ جیسے وہ اپنے بندیے کی ہزار ہا دعاؤں کو سنتا اور مانتا ہے۔اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔باوجود یکہ وہ ایک ذلیل سے ذلیل ہستی ہے ،لیکن اس پر فضل و کرم کرتا ہے۔اسی طرح اس کا حق ہے کہ یہ خدا کی بھی مان لے یعنی اگر کسی دعا میں اپنے منشاء اور مراد کے موافق ناکام رہے۔تو خدا پر بد ظن نہ ہو ،بلکہ اپنی اس نامرادی کو کسی غلطی کا نتیجہ قرار دے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر انشراح صدر کے ساتھ راضی ہو جاوے اور سمجھ لے کہ میرا مولیٰ یہی چاہتا ہے۔ مومنوں کی آزمائش اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ۔ولنبلو نکم بشی من الخوف والجوع ونقص من الاموال الانفس والثمرات(البقرہ:۱۵۶)خوف سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈر ہی ڈر ہے ۔انجام اچھا ہے۔اسی سے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔ پھر الجوع فقر وفاقہ تنگ کرتا ہے۔بعض اوقات ایک کرتہ پھٹ جاوے تو دوسرے کی توفیق نہیں ملتی۔جوع کا لفظ رکھ کر عطش کا لفظ چھوڑ دیا ہے،کیونکہ یہ جوع مے داخل ہے۔ نقص من الاموال بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ چور لے جاتے ہیں اور اتنا بھی نہیں چھوڑتے کہ صبح کی روٹی کھا سکیں۔سوچو!کس قدر تکلیف اور آفت کا سامنا ہوتا ہے۔ پھر جانوں کا نقصان ہے۔بچے مرنے لگ جاتے ہیں۔یہاں تک کہ ایک بھی نہیں رہتا۔جانوں کے نقصان میں یہ بات داخل ہے کہ خود تو زندہ رہے اور عزیز ومتعلقین مرتے جاویں۔کس قدر صدمہ ایسے وقت میں ہوتا ہے۔ہمارا تعلق دوستوں سے اس قدر ہے کہ جس قدر دوست ہیں اور ان کے اہل و عیال ہیں۔گویا ہمارے ہی ہیں۔