ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا،اس لیے ظاہری لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللَّہُ ان کے کام نہ آیا ۔ تو ان تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے۔اگر ان تعلقات کو وہ (طالب ) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا، تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے۔محبت اور اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہیے۔جہاں تک ممکن ہو اس انسان (مرشد)کے ہمرنگ ہو۔طریقوں میں اور اعتقاد میں۔نفس لمبی عمر کے دعوے دیتا ہے۔یہ دھوکہ ہے۔عمر کا اعتبار نہیں ہے۔جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیے۔اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہیے۔۱؎ تہجد کی تاکید اس زندگی کے کل انفاس اگر دنیاوی کاموں میں گذر گئے،تو آخرت کے لئے کیا ذخیرہ کیا………؟ تہجد میں خاص اُٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو۔درمیانی نمازوں میں بہ باعث ملازمت کے ابتلا آجا تا ہے۔رازق اللہ تعالیٰ ہے۔نماز اپنے وقت پر ادا کرنی چاہیے۔ظہر اور عصر کبھی کبھی جمع ہو سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ضعیف لوگ ہوں گے،اس لیے یہ گنجائش رکھ دی ،مگر یہ گنجائش تین کے جمع ہونے میں نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف اٹھانا جبکہ ملازمت میں اور کئی امور میں لوگ سزا پاتے ہیں(اور مورد عتاب حکام ہوتے ہیں)تو اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف اٹھاویں تو کیا خوب ہے۔جو لوگ راستبازی کے لیے تکلیف اور نقصان اٹھاتے ہیں وہ لوگوں کی نظروں میں بھی مرغوب ہوتے ہیں۔اور یہ کام نبیوں اورصدیقوں کا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے دنیاوی نقصان کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کبھی اپنے ذمے نہیں رکھتا، پوارا اجر دیتا ہے۔ انسان منافقانہ طرز نہ رکھے (انسان کو لازم ہے)منافقانہ طرز نہ رکھے۔مثلاً اگر ایک ہندو(خواہ حاکم یا عہدیدار ہو)کہے کہ رام اور رحیم ایک ہے،تو ایسے موقع پر ہاں میں ہاں نہ ملائے۔اللہ تعالیٰ تہذیب سے منع نہیں کرتا۔مہذبانہ جواب دیوے۔حکمت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایسی گفتگو کی جاؤے جس سے خوا نخوا جوش پیدا ہو اور بیہودہ جنگ ہو۔کبھی اخفائے حق نہ کرے۔ہاں میں ہاں ملانے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔ یار غالب شوکہ تا غالب شوی اللہ تعالیٰ کا پاس اور حیا رکھنی چاہیے۔ہمارے دین میں کوئی بات تہذیب کے خلاف نہیں۔