گناہ اور توبہ کی حقیقت گناہ کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ اللہ گناہ کو پیداکرے اور پھر ہزاروں برس کے بعد گناہ کی مُعافی سُوجھے۔ جیسے مکھّی کے دوپر ہیں ۔ ایک میں شفا اور دُوسرے میں زہر۔اسی طرح انسان کے دور پر ہیں۔ ایک معاصی کا دوسرا خجالت، توبہ ، پریشانی کا۔ یہ ایک قاعدہ کی بات ہے جیسے ایک شخص جب غلام کو سخت مارتا ہے تو پھر اُس کے بعد بچھتاتا ہے۔ گویا کہ دونوں پَراکٹھے حرکت کرتے ہیں۔ زہر کے ساتھ تریاق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا ؟ تو جواب یہ ہے کہ گویہ زہر ہے ، مگر کُشۃ کرنے سے حکم اکسیر کو رکھتا ہے۔اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا اور وہ ہلاک ہوجاتا۔ توبہ اس کی تلافی کرتی ہے۔ کبر اور عُجب کی آفت سے گناہ انسان کو بچائے رکھتا ہے۔ جب نبی معصوم ؐ ستر بار استغفار کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ گناہ سے توبہ وہی نہیں کرتا جو اس پر راضی ہو جاوے اور جو گناہ جانتا ہے،وہ آخر اُسے چھوڑے گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب انسان باربار رورو کر اللہ سے بخشش چاہتا ہے تو آخر کار خدا کہہ دیتا ہے کہ ہم نے تجھ کو بخشش دیا۔ اب تیرا جوجی چاہے سو کر۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے دل کو بدل دیا اور اب گناہ اُسے بالطبع بُرا معلوم ہوگا۔ جیسے بھیڑ کو مَیلا کھاتے دیکھ کر کوئی دوسراحِرص نہیں کرتا کہ وُہ بھی کھاوے، اسی طرح وہ اِنسان بھی گناہ نہ کرے گا جسے خدا نے بخش دیا ہے۔ مُسلمانوں کو خنزیر کے گوشت سے بالطبع کراہت ہے، حالانکہ اور دُوسرے ہزاروں کام کرتے ہیں جو حرام اور منع ہیں۔ تو اس میں حکمت یہی ہے کہ نمونہ کراہت کا رکھ دیا ہے اور سمجھادیا ہے کہ اسی طرح انسان کو گناہ سے نفرت ہوجاوے۔ دُعا تریاق ہے گناہ کرنے والا اپنے گناہوں کی کثرت وغیرہ کا خیال کرکے دُعا سے ہرگز باز نہ رہے۔دعا تریاق ہے۔آخرگناہوں سے دیکھ لے گا کہ گناہ اسے کیسا برا لگنے لگا ۔جو لوگ معاصی میں ڈوب کر دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں اور توبہ کی طرف رجوع نہیں کرتے،آخر وہ ابنیا اور ان کی تاثیرات کے منکر ہو جاتے ہیں ۔ توبہ جُزوِ بیعت ہے یہ توبہ کی حقیقت ہے (جو اوپر بیان ہوئی)اور یہ بیعت کی جز کیوںہے؟تو بات یہ ہے کہ انسان غفلت میں پڑا ہو ا ہے۔جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جیسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بیان بخشی ہو،تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے۔اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں (جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں)بشرطیکہ اس کے ساتھ سچا تعلق ہو ۔خشک شاخ کی طرح نہ ہو۔اس کی شاخ ہو کرپیوند ہوجاوے۔جس قدر یہ نسبت ہو گی اسی قدر فائدہ ہو گا۔ رسمی بیعت فائدہ نہیں دیتی بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی ۔ایسے بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے۔اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے ۔منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے۔