۱۸۹۵ء
جناب مفتی محمد صادق صاحب ؓ لکھتے ہیں :
’’۱۸۹۵ء میں جب میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا تو اس وقت بھی مجھے شوق تھا کہ آپ کے کلمات طیبات ایک کاغذ پہ نقل کر کے ہمیشہ لاہور لے جاتا اور وہاں کے احمدی احباب کو ہفتہ وار کمیٹی میں سنایا کرتا …اس وقت کی یاداشت میں سے کچھ نقل کر کے ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔ان ایام میں چونکہ تاریخ کا انتظام نہیں رکھا تھا ،اس لئے بلا تاریخ ہر ایک بات درج کی جاتی ہے ۔
بیعت اور توبہ
بیعت میں جاننا چاہیے کہ کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے؟ جب تک کسی شے کا فائدہ اورقیمت معلوم نہ ہو ،تو اس کی قدر آنکھوں کے اندر نہیں سماتی۔ جیسے گھر میں انسان کے کئی قسم کا مال واسباب ہوتا ہے ۔ مثلا روپیہ، پیسہ، کوڑی، لکڑی وغیرہ۔ توجس قسم کی شے ہے ، اسی درجہ کی اس کی حفاظت کی جاوے گی۔ایک کوڑی کی حفاظت کے لیے وہ سامان نہ کرے گا جو پیسہ اور روپیہ کے لیے اسے کرنا پڑے گا اور لکڑی وغیرہ کو تویونہی ایک کو نہ میں ڈال دے گا۔علی ہذالقیاس جس کے تلف ہونے سے اس کا زیادہ نقصان ہے ۔اس کی زیادہ حفاظت کرے گا ۔اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے۔جس کے معنی رجوع ؔکے ہیں۔توبہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جن سے ان کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بودوباش مقرر کر لی ہوئی ہے۔اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا۔ ا ب و طن کوچھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیںہوتی ہیں۔ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تواس کو سب یاردوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چارپائی، فرش وہمسائے،وہ گلیاں کوچے۔بازار سب چھوڑچھاڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس(سابقہ) وطن میں کبھی نہیں آتا۔ اس کا نام توبہ ہے۔ معصیت کے دوست اور ہوتے ہیںاور تقوی کے دوست اور۔ اس تبدیلی کو صوفیاء نے موت کہا ہے جو توبہ کرتا ہے،اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور سچی توبہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالی رحیم وکریم ہے۔ وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطانہ فرماوے، نہیں مارتا۔ اِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ(البقرہ۲۲۳) میں یہی اشارہ ہے کہ وہ توبہ کر کے غریب، بیکس ہو جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے محبت اورپیار کرتا ہے اور اُسے نیکوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے۔ دوسری قومیں خدا کو رحیم و کریم خیال نہیں کرتیں۔ عیسائیوں نے خدا کا تو ظالم جانا اور بیٹے کورحیم کو باپ تو گناہ نہ بخشے اور بیٹا جان دیکر (مگر یہاں توبالکل ندارد) اگر اللہ رحیم نہ ہوتا تو انسان کا ایک دم گذارہ نہ ہوتا۔ جس نے انسان کے عمل سے پیشتر ہزاروں اشیاء اُس کے لئے مفیدبنائیں، توکیا یہ گمان ہوسکتا ہے کہ توبہ اورعمل کوقبول نہ کرے۔