حضرت یوسف علیہ السلام کا مقامِ صدیقیت اگرگذشتہ زمانہ میں اس کی نطیر دیکھی جائے تو پھر یوسف ؑ صدیق ہے۔  جس نے ایساصدق دکھایا کہ یوسف ؑ صدیق کہلایا۔ ایک خوبصورت، معزز اور جوان عورت جو بڑی بڑے دعوے کرتی ہے، عین تنہائی اور تخلیہ میں ارتکابِ فعل بدچاہتی ہے، لیکن آفرین ہے اس صدیق پر کہ خداتعالیٰ کے حدود کو توڑنا پسند نہ کیا اور اس کے بالمقابل ہر قسم کی آفت اور دُکھ اُٹھانے کو آمادہ ہوگیا۔ یہانتک کہ قیدی کی زندگی بسر کرنی منظور کرلی؛ چنانچہ کہا : رب السجن احب الی ممایدعوننی الیہ (یوسف:۳۴) یعنی یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ اے رب مجھ کو قید پسند ہے اس بات سے جس کی طرف وہ مجھے بلاتی ہے۔ اس سے حضرت یوسف کی پاک فطرت اور غیرت نبوت کا کیساپتہ لگتا ہے کہ دوسرے امر کا ذکر تک نہیں کیا۔ کیا مطلب کہ اُس کا نام نہیں لیا۔ یوسف ؑ اللہ تعالیٰ کے حُسن واحسان کے گرویدہ اور عاشقِ زار تھے۔ اُن کی نظر میں اپنے محبوب کے سوا دوسری کوئی بات جچ نہ سکتی تھی۔ وُہ ہرگز پسند نہ کرتے تھے کہ حدُود اللہ کو توڑیں۔ کہتے ہیں کہ ایک لمبا زمانہ جو بارہ برس کے قریب بتایاجاتا ہے، وُہ جیل میں رہے۔ لیکن اس عرصہ میں کبھی حرفِ شکایت زبان پرنہ آیا۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کی تقدیرپرپورے راضی رہے۔ اس عرصہ میں بادشاہ کوکوئی عرضی بھی نہیں دی کہ اُن کے معاملہ کو سوچا جائے یا اُنہیں رہائی دی جائے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس خود غرض عورت نے تکالیف کا سلسلہ بڑھادیا۔ کہ کسی طرح پر وہ پھسل جاویں، مگر اس صدیق نے اپناصدق نہ چھوڑا۔ خدانے ان کو صدیق ٹھہرایا۔ یہ بھی صدق کا ایک مقام ہے کہ دُنیا کی کوئی آفت ، کوئی تکلیف اور کوئی ذلت اُسے حدود اللہ کے توڑے پر آمادہ نہیں کرسکتی۔ جس قدر بلائیں بڑھتی جاویں، وہ اُس کے مقام صدق کو زیادہ مضبوط اور لذیذ بناتی جاتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جیسا کہ مَیں بیان کرچکا ہوں کہ جب انسان ایاک نعبد کہہ کر صدق اوروفاداری کے ساتھ قدم اُٹھاتا ہے، تو خداتعالیٰ ایک بری نہر صدق کی کھول دیتا ہے جو اس کے قلب پر آگرتی ہے اور اُسے صدق سے بھر دیتی ہے وہ اپنی طرف سے بضاعتہ مُزجاۃ لاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کی گراں قدر جنس اُسے عطاکرتا ہے اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مقام میں انسان یہانتک قدم مارتا ہے کہ وُہ صدق اس کے لیے ایک خارق عادت نشان ہوجات اہے۔ اس پر اس قدر معارف اور حقائق کا دریا کھلتا ہے یعنی قوت دی جاتی ہے کہ ہر شخص کی طاقت نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔ مقامِ شہادت تیسرا کمال شہداء کام ہے۔ عام لوگ توشہید کے لئے اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ شہید وُہ ہوتا ہے ، جو تیریابندوق سے مارا جائے یا کسی اور اتفاقی موت سے مرجائے۔مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کا یہی مقام نہیں ہے۔ مَیں افسوس سے ظاہرکرتا ہوں کہ سرحد کے پٹھانوں کو یہ بھی