ہو؟ جو تمہیں دیدہ دانستہ ایسی ایسی ناپاکی میں ڈالتا ہے اور اگر وہ ان رشتوں کو تمہارے لئے حلال سمجھتا ہے تو پھر تم کیوں اپنے پرمیشر کی نافرمانی کرتے ہو اور کیوں شاکت مت کی طرح جو ہندوؤں کی ایک شاخ ہے ماؤں بہنوں کو اپنے پر حلال نہیں کر لیتے۔ یہ کمال ناسمجھی اور کمزوری ہے کہ جن چیزوں کو پرمیشر تمہارے لئے حلال ٹھہراتا ہے تم ان چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہو۔
پھر مضمون پڑھنے والے نے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن شریف میں لونڈیوں سے ہمبستر ہونا لکھا ہے مگر اس معترض کو اول یہ سوچنا چاہئے تھا کہ کیا یہ امر نیوگ کے برابر ہے؟ نیوگ کی تو یہ حقیقت ہے کہ ایک بے گناہ شریف زادی جو کسی کے نکاح میں ہو وہ محض اس وجہ سے دوسرے سے ہمبستر کرائی جاتی ہے کہ تا اس غریب کے پیٹ سے کسی طرح لڑکا پیدا ہو جائے جب دیکھتے ہیں کہ اُن کی عورت کو لڑکا پیدا نہیں ہوتا یا صرف لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں یا محض بانجھ ہوتی ہے تو ان تمام صورتوں میں اُس آریہ عورت کا کسی دوسرے سے منہ کالا کرایا جاتا ہے پس وہ عورت لڑکے کی خواہش سے کسی بیگانہ شخص سے حرامکاری کراتی ہے اور اس کے خاوند کو ایک ذرّہ غیرت نہیں آتی کہ اُس کے گھر میں ایک بے گانہ شخص اُس کی عورت سے حرامکاری کر رہا ہے بلکہ وہ خوش ہوتا ہے کہ اب شاید اس فعل شنیع سے حمل ٹھہر جائے گا اور لڑکا پیدا ہو گا اور وہ لڑکا مفت میں اُس کا لڑکا بن جائے گا۔ افسوس جن لوگوں کو اپنی عورت کی نسبت غیرت نہیں وہ دوسروں کے ساتھ کس طریق پر پرہیزگاری برت سکتے ہیں۔
رہا یہ امر کہ کافروں کی عورتوں اور لڑکیوں کو جو لڑائیوں میں ہاتھ آویں لونڈیاں بناکر اُن سے ہمبستر ہونا تو یہ ایک ایسا امر ہے جو شخص اصل حقیقت پر اطلاع پاوے وہ اس کو ہرگز محل اعتراض نہیں ٹھہرائے گا۔
اور اصل حقیقت یہ ہے کہ اُس ابتدائی زمانہ میں اکثر چنڈال اور خبیث طبع لوگ ناحق اسلام کے دشمن ہوکر طرح طرح کے دُکھ مسلمانوں کو دیتے تھے اگر کسی مسلمان کو قتل کریں تو اکثر اس میّت کے ہاتھ پیر اور ناک کاٹ دیتے تھے اور بے رحمی سے بچوں کو بھی قتل کرتے تھے اور اگر کسی