کے ؔ لئے وہ لوگ پسند کرتے تھے اس کا بدلہ لینے کے لئے حکم دے دیا۔ اسی بنا پر اسلام میں یہ رسم جاری ہوئی کہ کافروں کی عورتیں لونڈی کی طرح رکھی جائیں اور عورتوں کی طرح استعمال کی جائیں یہ تو انصاف اور طریق عدل سے بعید تھا کہ کافر تو جب کسی مسلمان عورت کو اپنے قبضہ میں لاویں تو اُس کو لونڈی بناویں اور عورتوں کی طرح اُن کو استعمال کریں اور جب مسلمان اُن کی عورتوں اور اُن کی لڑکیوں کو اپنے قبضہ میں کریں تو ماں بہن کرکے رکھیں۔خدا بے شک حلیم ہے مگر وہ سب سے زیادہ غیرت مند ہے اُس کی غیرت ہی تھی جو نوح کے طوفان کا باعث ہوئی۔ اُسی کی غیرت نے ہی انجام کار فرعون اور اُس کے تمام لشکر کو دریا میں غرق کردیا۔ اُسی کی غیرت نے لوط کی قوم پر زمین کا تختہ اُلٹا دیا۔ اور اُسی کی غیرت اب جابجا ہیبت ناک زلزلے دکھلا رہی ہے اور لاکھوں انسانوں کو طاعون سے ہلاک کررہی ہے اور اسی کی غیرت نے لیکھرام کو جو بدزبانی سے کسی طرح باز نہیں آتا تھا اُسی کی زبان کی چھری سے آخر لوہے کی چھری غیب سے پیدا کردی اورجواناں مرگ مارا اور بڑے دُکھ سے اُس کو اُس کی قوم میں سے اُٹھا لیا اور کوئی اس کو بچانہ سکا اورخدا نے اپنی پیشگوئی اُس میں پوری کردی۔ پس اسی طرح جب عرب کے خبیث فطرت ایذا اور دُکھ دینے سے باز نہ آئے اور نہایت بے حیائی اور بے غیرتی سے عورتوں پر بھی فاسقانہ حملے کرنے لگے تو
خدا نے اُن کی تنبیہ کے لئے یہ قانون جاری کردیا کہ اُن کی عورتیں بھی اگر لڑائیوں میں پکڑی جائیں تو اُن کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے۔ پس یہ تو بموجب مثل مشہور کہ عوض معاوضہ گلہ ندارد کوئی محل اعتراض نہیں۔ جیسی ہندی میں بھی یہ مثل مشہورہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی مگر یہ دوسری بات درحقیقت نہایت بے رحمی۔ دیوثی اور بے حیائی کا کام ہے کہ انسان اپنی عورت سے محض لڑکا پیدا ہونے کی خواہش سے زنا کراوے یہ ایک ایسی ناپاکی کی راہ اورگندی نظیر ہے کہ تمام دنیا میں اگر تلاش کرو تو ہرگز ہرگز اُس کی نظیر نہیں ملے گی۔ پھر ماسوا اس کے اسلام اس بات کا حامی نہیں کہ کافروں کے قیدی غلام اور لونڈیاں بنائی جائیں بلکہ غلام آزاد کرنے کے بارہ میں اِس قدر قرآن شریف میں تاکید ہے کہ جس سے بڑھ کر متصور نہیں۔ غرض ابتدا غلام لونڈی بنانے کی