رہے ہیں اور اندر غار میں خادم ومخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔خدا تعالیٰ کے وعدوں پر بھروسہ ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ ہی کافی ہے۔ابو بکر صدیق کی شجاعت کے لئے ایک دوسرا گواہ اس واقعہ کے سوا اور بھی ہے۔
آنحضرت ؐ کی رحلت کے وقت حضرت ابو بکر صدیق کی شجاعت جب آنحضرت صلی
اللہ علیہ والہ وسلم نے رحلت فرمائی اور حضرت عمر ؓ تلوار کھینچ کر نکلے کہ اگر کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا ہے، تو میں اسے قتل کردوں گا۔ ایسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بری جرأت اور دلیری سے کلام کیا اور کھڑے ہوکر خطبہ پڑھا۔ مامحمدالا رسول قد خلت من قبلہ الرسل(آل عمران:۱۴۵) یعنی محمد ؐ بھی اللہ کے رسول ہی ہیں اور آپؐ سے پہلے جس قدر نبی ہوگذرے ہیں۔ سب نے وفات پائی۔ اس پر وہ جوش فردہوا۔ اس کے بعد بادیہ نشین اعراب مرتد ہوگئے۔ ایسے نازک وقت کی حالت کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے یوں ظاہر فرمایا ہے کہ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوچکا ہے اور بعض جھوٹے مدعی نبوت کے پیدا ہوگئے ہیں اور بعضوں نے نمازیں چھوڑدیں اوررنگ بدل گیا ہے۔ ایسی حالت میں اور اس مصیبت میں میرا باپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخلیفہ اور جانشین ہوا۔ میرے باپ پر ایسے ایسے غم آئے کہ اگرپہاڑوں پر آتے، تو وہ بھی نابود ہوجاتے۔ اب غور کرو کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے پر بھی ہمت اور حوصلہ کو نہ چھوڑنا یہ کسی معمولی انسان کاکام نہیں۔ یہ استقامت صدق ہی کو چاہتی تھی اور صدیق ؓ نے ہی دکھائی۔ ممکن نہ ھا کہ کوئی دوسرا اس خطرہ کو سنبھال سکتا۔ تمام صحابہ ؓ اس وقت موجود تھے۔ کسی نے نہ کہا کہ میرا حق ہے۔وہ دیکھتے تھے کہ آگ لگ چکی ہے۔ اس آگ میں کون پڑے۔ حضرت عمرؓ نے اس حالت میں ہاتھ بڑھا کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر سب نے یکے بعد دیگرے بیعت کرلی۔ یہ اُن کا صدق ہی تھا کہ اس فتنہ کو فرد کیا اور اُن موذیوں کو ہلاک کیا۔ مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی تھا اور اس کے مسائل اباحت کے مسائل تھے۔ لوگ اس کی اباحتی باتوں کو دیکھ دیکھ کراُس کے مذہب میں شامل ہوتے جاتے تھے، لیکن خداتعالیٰ نے اپنی عیت کا ثبوت دیا اور ساری مشکلات کو آسان کردیا۔
عیسائیت قبول کرنے کی ترغیبات خُونِ مسیح ؑ پرایمان لانا بھی سہل بنا ہوا ہے۔ کیونکہ اس پر ایمان لانے سے ایک تو روٹی مِل جاتی
ہے دوسرے اباحت کی زندگی۔ اسلام میں تو اللہ اکبر کی آواز سے ہی نماز کے لئے اُٹھانا پڑتا تھا، مگر اب یہ حال کہ خونِ مسیح ؑ پر ایمان لاکر رات کو شراب پی کر سوگئے اور جب جی چاہا اُٹھے۔ کوئی باز پُرس نہیں۔ ایسی حالت میں لوگوں کا رُجوع عیسائیت کی طرف ہونا لازمی امرہے۔ لوگوں کی حالت کچھ اس قسم کی ہوگئی ہے کہ کہتے ہیں۔’’ ایہہ جہان مٹھا، اگلاکس ڈِٹھا۔‘‘