میں نے ان کو کہا بھی کہ عادت کا بدلنا مشکل ہے اور تجربہ ہوچکا ہے کہ اُن کی قلموں سے بجز گند کے اور کچھ نہیں نکل سکتا اور وہ ضرور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے مضمون میں توہین کریں گے اور قرآن شریف کا ذکر تکذیب اور ہتک کے الفاظ سے کریں گے۔ مگر ڈاکٹر صاحب موصوف مکار آریوں کے ایسے دھوکہ میں آچکے تھے کہ وہ باربار یہی کہتے تھے کہ وہ زمانہ گذر گیا اور اب میں دیکھتا ہوں کہ اُن کی کلام میں بڑی تہذیب اور شرافت پائی جاتی ہے اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ بڑی تہذیب سے یہ جلسہ ہوگا۔ دراصل میں تو نہ آریوں کے ملمع دار اشتہار پر اعتماد کرسکتاتھا اور نہ ان کے انکساری کے خطوط مجھے یہ تسلی دے سکتے تھے کہ وہ شرافت اور تہذیب سے مضمون سنائیں گے لیکن سادہ طبع ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے بار بارکے بیان سے میں دھوکہ میں آگیا۔ بہرحال میں نے خطوط کے ذریعہ سے کئی سو۱۰۰ اپنے مرید کو اطلاع دے دی کہ وہ آریہ صاحبوں کے جلسہ پر حاضر ہوں اور اُن کو تسلی دی کہ آریہ صاحبان بڑی شرافت اور تہذیب سے مضمون سنائیں گے چنانچہ تاریخ مقررہ پر کئی سو معزز میری جماعت کے دُور دراز ملکوں سے ہزارہا روپیہ خرچ کرکے اُس جلسہ میں شامل ہوئے اور فی کس ۴؍ کے حساب سے جلسہ کی مقررہ فیس بھی آریوں کو دی اور بہت سے روپیہ کے ساتھ اُن کا کیسہ پُر کردیا۔ اور ہماری طرف سے جو مضمون پڑھا گیا وہ اِس کتاب کے ساتھ شامل ہے۔ اور پڑھنے والوں کو معلوم ہوگا کہ وہ کس تہذیب سے لکھا گیا تھا اور عجیب تر یہ بات ہے کہ جب میں مضمون ختم کرچکا تھا تو ساتھ ہی مجھ کو یہ الہام خدا کی طرف سے ہوا تھا انھم ماصنعوا ھوکید ساحر۔ ولا یفلح الساحر حیث اتٰی۔ انت منّی بمنزلۃ النّجم الثاقب۔ ترجمہ۔ آریہ لوگوں نے جو یہ جلسہ تجویز کیا ہے یہ مکار لوگوں کی طرح ایک مکر ہے اور اس کے نیچے ایک شرارت اور بدنیتی مخفی ہے مگر فریب کرنے والا میرے ہاتھ سے کہاں بھاگے گا؟ جہاں جائے گا میں اُس کو پکڑوں گا اور میرے ہاتھ سے چھٹکارا نہیں پائے گا۔ تومجھ سے ایسا ہے جیسا کہ وہ ستارہ جو شیطان پر گرتا ہے۔
یہ وہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ہے جو اُس مضمون کے ساتھ ہی چھاپ کر اس مذہبی جلسہ میں سنائیؔ گئی تھی۔ اگر آریوں کے دلوں میں کچھ خدا کا خوف ہوتا اور کچھ شرافت ہوتی تو اس الہام الٰہی کو