قرآن شریف (نعوذ باللہ) جھوٹا ہے اور اسی بناء پرمیں مرزاغلام احمد قادیانی سے مباہلہ کرتا ہوں پس اگر میں اِس عقیدہ میں سچا نہیں ہوں تو اے پرمیشر ! میری مُراد کے مخالف فیصلہ کر اور جو شخص تیری نظر میں جھوٹا ہے سچے کے زندگی میں ہی اُس کو سزا دے اور اپنے قطعی فیصلہ سے سچائی کو ظاہر فرما۔ چنانچہ خدا نے اُس مباہلہ کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ لیکھرام کو میری زندگی میں ہی ہلاک کردیا۔ اور اب اُس کی موت پر بارھو۱۲اں سا ل گذر رہا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ آریوں نے خدا تعالیٰ کے اِس صریح اور کھلے کھلے نشان سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ ان کی شوخی پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی۔
بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ دسمبر ۱۹۰۷ ء کے مہینہ میں ان کی طرف سے مذہبی جلسہ کے لئے ایک اشتہار نکلا اور وہ اشتہار خصوصیت سے میری طرف بھیجا گیا اور میری جماعت کے بہت سے معزز لوگوں میں تقسیم کیا گیا۔ جس کا حاصل مطلب یہ تھا کہ ایک مذہبی جلسہ ہوگا آپ صاحب تشریف لائیں اور اپنے مذہب کی تائید میں لکھ کر مضمون لاویں۔ مضامین میں یہ شرط ہے کہ کسی فریق کا کوئی مضمون خلاف تہذیب نہ ہو اورعلاوہ اس کے میری طرف کئی انکساری کے خط لکھے کہ ہم لوگ آپ کے درشن کے بھی مشتاق ہیں۔ چونکہ مومن سادگی سے خالی نہیں ہوتا میں اس اشتہار اور ان خطوط کو پڑھ کر بہت خوش ہوا اور دِل میں سوچا کہ آریہ صاحبوں نے آخرکار زمانہ کی ہوا دیکھ کر اپنی بدکلامی اور بدتہذیبی سے توبہ کرلی ہے اور یہ بھی خیال آیا کہ چونکہ بعض آریوں کی بعض حرکات کی وجہ سے گورنمنٹ کو اس فرقہ کی نسبت کچھ شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے اِس لئے غالباً یہ جلسہ ان شکوک کے ازالہ کے لئے ہے تا گورنمنٹ کو معلوم ہوکہ اب یہ آریہ قوم وہ آریہ نہیں ہیں جو پہلے تھے بلکہ اُنہوں نے اس گوشمالی کے بعد بڑی تبدیلی اپنے اندر حاصل کرلی ہے اور تہذیب کو اپنا پیرایہ بنا لیا ہے اوروہ اس جلسہ سے گورنمنٹ عالیہ کواپنی تہذیب کا نمونہ دکھانا چاہتے ہیں۔ سو اِس خیال سے نہ صرف مجھے خوشی ہوئی بلکہ ہر ایک فرد میری جماعت کا بہت خوش تھا اور میرے عزیز ڈاکٹر میرزا یعقوب بیگ صاحب اسسٹنٹ سرجن لاہور تو گویا قسم کھانے کو اِس بات کے لئے تیار تھے کہ یہ جلسہ بڑی تہذیب سے ہوگا اور انہوں نے کئی مرتبہ مجھے کہا کہ آپ آریوں کی پہلی حالت پر خیال نہ کریں۔ ابؔ توان کے اندر بڑی تبدیلی معلوم ہوتی ہے۔ اور