اگرچہ میں نے اپنی کئی کتابوں میں آریہ صاحبوں کے اُن تمام حملوں کا جواب دیا ہے جو اسلام پر وہ کیا کرتے ہیں چنانچہ میں نے اُس زمانہ میں بھی اُن کے شبہات کے ردّ میں اپنی کتاب براہین احمدیہ کو شائع کیا تھا جب کہ پنجاب میں آریہ مذہب کی ابھی تخم ریزی ہوئی تھی اور براہین احمدیہ کی تالیف کا یہ باعث ہوا تھا کہ پنڈت دیانند نے سرنکالتے ہی اسلام پر زبان کھولی اور اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بے ادبی کی اور قرآن شریف کا بہت توہین کے ساتھ ذکر کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جس پر آج سے قریباً اٹھائیس۲۸ برس گذر گئے۔ امید تھی کہ آریہ لوگ میری اُس کتاب کے بعد اپنی زبان بند کر لیتے لیکن افسوس! کہ آریہ صاحبوں کے ایسے دل ہیں کہ وہ اپنی عادت سے باز نہ آئے بلکہ دن بدن بڑھتے گئے اور جب اُن کی بدزبانی انتہا تک پہنچ گئی۔۔۔ تو اُن میں ایک شخص لیکھرام نام پیدا ہوا۔ اور لیکھرام نے صرف بدزبانی پربس نہ کی بلکہ اپنی موت کے لئے مجھ سے پیشگوئی چاہی چنانچہ میں نے اس کے بار بار کے اصرار کی وجہ سے خدائے عزّوجلّ سے اطلاع پاکر اُس کو خبر کردی کہ وہ چھ۶ برس کے اندر مر جائے گا مگر اُس نے اِس پر کفایت نہ کرکے مجھ سے تحریری مباہلہ کیا اور ایسے وقت میں اُس نے مباہلہ کیا جب کہ خدا کے نزدیک اس کی زندگی کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ اُس نے اپنے مباہلہ میں جو اس کی کتاب خبط احمدیہ میں درج ہوکر اس کے مرنے سے ایک مُدت پہلے شائع ہوگیا تھااِس مضمون کی دعا کی جس کا خلاصہ مطلب یہ تھا کہ اے پرمیشر ! میں جانتا ہوں کہ ؔ چاروں وید سچے ہیں اور ۱؂ الشوریٰ :۴۲